جلد بازی نقصان دہ ثابت ہوگی  فکر انگیز

ابراہیم آتشؔ
یکساں سول کوڈ کامسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہےاور اس پرمسلمانوں کو جلد بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔پہلے بھی ملک میںخالص مسلمانوں کے مسئلے اٹھائے گئے، مثلاً بابری مسئلہ پرمسلمانوں نے پرزور مخالفت کی، ملک گیر سطح پر احتجاجات ہوئے، مظاہرے ہوئے،مگربعد میں یہ مسئلہ ہندو بنام مسلمان بن گیا اور بالآخرعدالت ِ عظمیٰ نے آستھا کی بنیاد پر فیصلہ ملک کی اکثریت کے حق میں دے دیا ۔ بہر حال بابری مسجد کا مسئلہ صرف مسلمانوں سے جڑا ہوا تھا،مسلمان اقلیت میں تھے اور اقتدار میں بھی اُن کی کوئی حصہ داری نہیں تھی۔ اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب بھی فرقہ پرستوں کی جانب سے کوئی شوشہ چھوڑا جاتا ہے، اس کی مخالفت میں خصوصاً مسلم سیاسی پارٹیوں کے لیڈ ر حرکت میں آجاتے ہیںاورفوراً ٹویٹ کرتے ہیں،پھر اس کے بعد ٹی وی چینل کے رپوٹرس اُن کے پاس پہنچ جاتے ہیںاور پھر وہ قومی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کھلم کھلا سامنے آ جاتے ہیں،نام نہاد مولویوں کے ذریعہ اس کو قومی مباحثہ بنایا جاتا ہے اور پھر آخر میں پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جاتا ہے، لازمی بات پارلیمنٹ میں بی جے پی کی اکثریت ہے اور یہ بل پاس ہو جاتا ہے۔
ماضی میں اس طرح کے کئی معاملے ہمیں دیکھنے میں آئے، ہمیں اس سے سبق لینے کی ضرورت تھی مگر مسلم قیادت اس سے سبق لینے کی کوئی کوشش نہیں کی، یکساں سول کوڈ کا مسئلہ پھر اٹھایا جا رہا ہے اور کچھ مسلم سیاسی لیڈرس اس کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں،ان کی مخالفت سے یقینا ًمسلمانوں کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے اُن سیاسی لیڈروں کو سیاسی فائدہ پہنچے یا ہو سکتا ہے کوئی اور فائدہ پہنچے مگر اجتماعی طور پر مسلمانوں کو نقصان کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ ملک کے مسلمانوں کی اکثریت اَن پڑھ ہے، ان مسائل کو سنجیدگی سے سمجھ نہیں سکتے، انھیں جذباتی لیڈروں کی باتوں پر یقین ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بننے والے تمام قانون آسانی سے پارلیمنٹ میں پا س ہو جاتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی قیادت متحدہ طور پر اس طرح کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتی تو ممکن ہے مسلمان کچھ حدتک کامیاب ہو سکتے تھے مگر مسلمانوں کی قیادت مختلف گروہ میں تقسیم ہے، مسلم سیاسی پارٹیوں میں مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے الگ اسٹیج سے آواز دیتے ہیں،مختلف مسلک کے دینی جماعتیںاپنے اسٹیج سے آواز دیتے ہیںاور باقی بچے مسلم سیاسی لیڈر ان مختلف سیاسی جماعتوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں،ان کا اپنا ایک پلیٹ فارم ہے۔ غرض تمام لوگوں کا مقصد ایک ہی ہے مگر وہ ایک اسٹیج پر ایک پلیٹ فارم پر آنے کو تیار نہیں۔بہرحال اس خلاءکوپُرکرنامشکل ضرورہےناممکن نہیںہے۔ بات ہو رہی ہے یکساں سول کوڈ کی، یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک میں بسنے والے تمام اقلیتوں،دلتوں اور پچھڑوں کا مسئلہ بھی ہے، مگر ان تمام سے پہلے مسلم سیاسی پارٹیوں کی مخالفت اس لئےحیران کن ہے کہ مسلم سیاسی پارٹیوںاور مسلم تنظیموں کا ماضی ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح بُری طرح فیل ہو چکے ہیں۔ اس طرح دوبارہ حماقت نہ کریں تو بہتر ہے۔ میںتمام ان مسلمانوں سے مخاطب ہوں جو یہ کہتے ہیں یکساں سول کوڈ اس ملک میں نافذ نہیں ہو سکتا ہے، جیسے جذباتی بیانوں اور تحریروں سے پرہیز کریں اور پھر سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔ کانگریس کے زمانے میں ہمارے احتجاج اور مظاہروں سے فیصلے بدلے جاتے تھے مگرآج ہمارے احتجاج اور مظاہرے ہمارے لئے نقصان دہ اور فرقہ پرستوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے بیانات اور احتجاجات سے یکساں سول کوڈ جہاںہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا وہیں ہم اُن تمام اقلیتوں دلت اور پچھڑوں کے بھی گنہگار ہوں گے۔ اس لئے ہمارے تمام جذباتی تمام مسلمانوں کو چاہئےکہ جمہوریت کا غلط فائدہ نہ اٹھائیںاور اس مسئلہ کو ہندو مسلم کا مسئلہ نہ بنانے دیں۔بلکہ اس کو اونچی ذات اورباقی تمام مذاہب اور ذاتوں کا مسئلہ بنائیں۔ہندوئوں میں کئی ذاتیں ہیں جو یکساں سول کوڈ کے خلاف ہیںاور اس کے ساتھ ملک کی دیگر اقلیتیںسکھ ،عیسائی ،جین ،پارسی ،بدھسٹ، یہ تمام بھی یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کرتے، ان کی جانب سے آواز اٹھنے کا انتظار کریں۔جب آوازیں ایک ساتھ اٹھنے لگیںتب مسلمان ان آوازوں میں اپنی آواز ملا لیںاور تحریک کوتقویت دیں ۔موجودہ حالات میں بدھسٹ ،سکھ یا دلت بہتر قیادت کر سکتے ہیں، اس سے ہندو مسلم مسئلہ نہیں بنے گا۔گو کہ ہمارے مسلم سیاسی پارٹیوں کو شہرت نہ ملے مگر یہ تمام مسلمانوں کی کامیابی ہے ۔اگر مسلمان یکساں سول کوڈ کو ہندو مسلم مسئلہ بنائیں گے تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے ،ملک میں یکساں سول نافذ ہونے سے کوئی نہیںروک سکتا ،چاہے مسلمان اس کے خلاف کتنے بھی مظاہرے کریں ،احتجاجات کریں ،سب نا کام ہوں گے۔ بدلے میں نوجوانوں کی شہادت ہو گی، جیلوں میں ڈالے جائیں گے، گھروں پر بلڈوزر چلیں گے اور مسلمانوں کے خلاف لا تعداد مقد مے دائر ہونگے اور اس کے ذمہ دار وہی مسلمان ہوں گے، جو اس کو ہندو مسلم بنائیں گے۔ کیونکہ منافر گروہ یکساں سول کوڈ کے نام پر اپنے چالاک حربوں سے ایک ایسا یکساں سول کوڈ لا سکتے ہیں، جو سوائے مسلمانوں کے کسی اورکو متاثر نہ کرے ۔
رابطہ۔9916729890
[email protected]>