جشن آزادی  | آزادی کا سورج بسم اللہ خاں کی شہنائی کے ساتھ طلوع ہوا تھا

معصوم مرادآبادی

یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ ہندوستان میں آزادی کی پہلی صبح بسم اللہ خاں کی شہنائی کے ساتھ نمودار ہوئی تھی ۔ انھوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی خواہش پر اپنے مخصوص انداز میں لال قلعہ کی فصیل سے شہنائی بجاکر ماحول میں مٹھاس گھول دی تھی۔ اس کے بعد 1997 میں جب آزادی کی پچاسویں سالگرہ منائی گئی تو بسم اللہ خاں کو ایک بار پھر شہنائی بجانے کے لیے مدعو کیا گیااور انھوں نے اپنے اسی مخصوص انداز میں شہنائی بجاکر ہم وطنوں کا دل جیت لیا۔ آج ہم جب اپنی آزادی کی75ویں سالگرہ منارہے ہیں تو بسم اللہ خاں اس دنیائے فانی میں موجود نہیں ہیں ، لیکن لال قلعہ کی فصیل پر بجائی گئی ان کی شہنائی کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ آزادی کا 75؍واں جشن کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ 75؍برس پہلے جب ہمیں انگریز سامراج کے ہاتھوں سے آزادی ملی تو اسی روز ہم نے ایک نئے اور خوشحال ہندوستان کی داغ بیل ڈالی جسے سبھی ہندوستانیوں نے اپنے خون پسینے سے سینچ کر پروان چڑھایا۔ ہم آزادی کے 75ویں جشن کے موقع پر اپنے ان تمام سورماؤں کو یاد کررہے ہیں جنھوں نے بے مثال قربانیاں دے کر اس ملک کی آزادی کی راہ آسان کی۔ اس دوران ہمارے بزرگوں نے اپنی ہر وہ چیز آزادی کی خواہش میں قربان کی جسے وہ زندگی میں عزیزرکھتے تھے۔ان قربانیوں کی داستان ولولہ انگیز بھی ہے اور ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اگر ہمارے حوصلے جوان ہوں تو غلامی کی زنجیروںں کو کس طرح کاٹا جاسکتا ہے اور کس طرح دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کا غرور خاک میں ملایا جاسکتا ہے۔ آزادی کے اس 75؍ویں جشن کے موقع پر ہم یہاں اپنے اس پہلے جشن آزادی کی کچھ یادیں تازہ کرنے بیٹھے ہیں جو ہمارے لیے سب سے زیادہ یادگار دن ہے۔ عام طورپر یہ دن ہم ہرسال 15؍اگست کو مناتے ہیںکیونکہ1947 میں اسی دن ہم آزاد ہوئے تھے۔لیکن یہ بات کم ہی لوگوںکو معلوم ہے کہ ہماری آزادی کا پہلا جشن اس سے بہت پہلے یعنی 26؍جنوری 1930 کو منایا گیا تھا۔اس کا پس منظر جان کر آپ کو حیرت ہوگی ۔ ہوا یوں کہ دسمبر1929 میں لاہور میں منعقدہ کانگریس اجلاس میں بابائے قوم مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے ایک اہم فیصلہ کیا اور وہ یہ تھا کہ ہرسال جنوری کے آخری اتوار کو ’یوم آزادی‘ منایا جائے گا ۔ گاندھی جی نے مشورہ دیا کہ یہ پیغام ملک کے ہرشہر ، ہر گاؤں تک پہنچایا جائے ۔ لہٰذایہ طے ہوا کہ 26؍جنوری کو پورے ملک میں اس جشن کا آغازقومی پرچم لہرا کرکیا جائے اور دن کا باقی وقت دلچسپ سرگرمیوں میں بتایا جائے ۔ لوگ صفائی کریں، چرخہ چلائیں، اچھوت سمجھے جانے والوںکی خدمت کرکے انھیں بھی ہندوستان کا باعزت شہری ہونے کا احساس دلایا جائے۔گاندھی جی کا یہ پیغام پورے ملک میں تیزی کے ساتھ پھیلا ۔26؍جنوری 1930 کو لوگ اپنے گاؤں ، شہروں ،قصبوں میں گھروں سے نکل کر ایک جگہ اکٹھا ہوئے ۔ ہندوستانیوں کی اس سرگرمی اور غضب کے جوش وخروش کو دیکھ کر انگریز حیرت زدہ رہ گئے ۔ہر جگہ لوگوں کے بے کراں ہجوم کسی بھی قسم کے شور ، تشددیا ہنگامہ آرائی کے بغیر پُرامن طریقے سے اکٹھا ہوئے ۔ گاؤں اور شہروں میں آزادی کے لیے اپنے جوش وخروش کا اظہار کرنے کی ہوڑسی لگ گئی۔ 1930کے بعد آزادی ملنے تک ہرسال26؍جنوری کو لوگ یوم آزادی مناتے رہے۔آخرکار وہ دن بھی آپہنچا جب ملک پوری طرح انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا اور ملک میں ایک نئی صبح نمودار ہوئی ۔ اس کی گواہی نامور مجاہدآزادی اور ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’انڈیا ونس فریڈم ‘ میں ان لفظوں میں دی ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’ہماری آزادی ‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
’’15؍اگست کی صبح کی نشاندہی کے لیے ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔آدھی رات کو آئین سازاسمبلی کا جلسہ ہوا اور یہ اعلان کیا گیا کہ ہندوستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست ہے۔اگلے روز صبح نو بجے دوبارہ اسمبلی کا جلسہ ہوا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے افتتاحی تقریر کی ۔ سارے شہر میں خوشی کا ہنگامہ برپا تھا ۔ یہاں تک کہ تقسیم کی اذیتیں بھی اس وقت بھلا دی گئیں۔ شہر اور مضافات کے لاکھوں باشندے آزادی کی آمد کا جشن منانے کے لیے اکٹھا ہوگئے ۔شام چار بجے آزاد ہندوستان کا پرچم لہرایا جانے والا تھا۔ اگست کے تپتے ہوئے سورج کے باوجود لاکھوں امڈ پڑے بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ چلچلاتی دھوپ میں وہ گھنٹوں سے انتظار کررہے تھے ۔ مجمع اتنا کثیر تھاکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اپنی کار سے نہیں نکل سکے اور وہیں سے انھیں اپنی تقریر کرنی پڑی ۔‘(ہماری آزادی، صفحہ290 ، اورینٹ لونگ مین ،اشاعت1991 دہلی)
آزادی کی صبح نمودار ہوتے ہی چاروں طرف پربھات پھیریاں نکلنے لگیں ۔ عجیب جوش وخروش دیکھنے کو ملا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو اس دن کو یادگار بنانے کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس موقع پر بسم اللہ خاں کی شہنائی بجوائی جائے۔آزادی کے پہلے جشن کے جوائنٹ سیکریٹری بدرالدین طیب جی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ بسم اللہ خاں کو تلاش کریں ۔ بسم اللہ خاں اس وقت بمبئی میں تھے ۔ انھیں ہندوستانی فضائیہ کے خصوصی طیارے سے دہلی لایا گیا اور سجان سنگھ پارک میں سرکاری مہمان کے طورپر ٹھہرایا گیا۔ وہ اس یادگار موقع پر شہنائی بجانے کا موقع ملنے پر بہت جوش میں تھے ، لیکن انھوں نے پنڈت نہرو سے کہا کہ وہ لال قلعہ پر چلتے ہوئے شہنائی نہیں بجاپائیں گے ۔ نہرو جی نے ان سے کہا کہ آپ لال قلعہ پر ایک عام فن کار کی طرح نہیں چلیں گے ۔آپ آگے چلیں گے اور آپ کے پیچھے میں اور پورا ملک چلے گا۔ اس طرح بسم اللہ خاں اور ہمنواؤں نے راگ کافی بجاکر آزادی کی پہلی صبح کا استقبال کیا ۔ اس کے بعد جواہر لال نہرو نے لال قلعہ کے لاہوری دروازہ پر جھنڈا لہرایا۔ اس کا تذکرہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی رپورٹ میں بھی کیا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ1997 میں جب آزادی کی گولڈن جوبلی منائی گئی تو بسم اللہ خاں کو لال قلعہ کی فصیل سے شہنائی بجانے کے لیے ایک بار پھر مدعو کیا گیااور انھوں نے آزادی کے اس پچاسویں جشن کو بھی شہنائی بجاکر یادگار بنادیا۔ 15؍اگست 1947 کے دن وائسرائے لاج(آج کا راشٹرپتی بھون)میں جب آزادہندوستان کی پہلی حکومت کو حلف دلایا جارہا تھاتو لاج کے مرکزی مقام پر صبح ساڑھے دس بجے آزاد ہندوستان کا پرچم پہلی بار لہرایا گیا ۔قبل ازیں 14و 15؍اگست کی درمیانی رات میں آزادہندوستان کا قومی پرچم کونسل ہاؤس کی عمارت کے اوپر لہرایا گیا۔ یہی عمارت آج ہماری پارلیمنٹ ہے اور جمہوریت کی سب سے بڑی نگہبان بھی۔اس سے پہلے 14؍اگست کی شام کوہی وائسرائے ہاؤس کے اوپر سے یونین جیک کو اتارلیا گیا تھا۔لال قلعہ پراگلے دن یعنی 15؍اگست کو قومی پرچم لہرانے کی تقریب کو دیکھنے کے لیے ہزاروں کا ہجوم اکٹھا ہوا تھا ۔ اس موقع پر پنڈت جواہر لال نہرو نے قوم کو خطاب کیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک طرف دہلی میں جشن کا سماں تھا ، لیکن بابائے قوم مہاتما گاندھی اس سے دور کلکتہ میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آزادی کے ساتھ ہوئی ملک کی تقسیم اور فرقہ وارانہ فسادات سے سخت بے چین تھے۔ کانگریس کے کچھ لیڈر انھیں منانے اور دہلی میں ہونے والے جشن آزادی میں شرکت کے لیے کلکتہ گئے ، لیکن انھوں نے سب کو واپس لوٹادیا ۔آزادی کی پہلی صبح گاندھی جی کے لیے بھوک ہڑتال سے شروع ہوئی تھی، صبح صبح انھوں نے چرخہ کاتتے ہوئے کچھ خطوں کے جواب لکھوائے تھے۔ ان خطوط میں انھوں نے چرخہ کاتنے کو ہی جشن کانام دیا تھا۔گاندھی جی ملک کی تقسیم کے سخت مخالف تھے اور آخری وقت تک اپنے موقف پرقایم رہے۔
رابطہ۔[email protected]