تین رنگوں والے جھنڈے کی نمائش| آزاد کی’ آزاد ڈیموکریٹک پارٹی ‘کا قیام گاندھی کو ماننے والے ، امن کے راستے پر چلیں گے:سابق وزیر اعلیٰ

یو این آئی

جموں // سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے پیر کے روز اپنی پارٹی کے نام کا اعلان ’ڈیموکریٹک آزاد پارٹی‘ کے طور پر کرکے پارٹی کے جھنڈے کی بھی نمائش کی جو نیلے، پیلے اور سفید رنگوں کا ہے۔موصوف نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’میری پارٹی میں مطلق العنانی نہیں ہوگی، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگئی ،میری پارٹی کا نام ڈیموکریٹک آزاد پارٹی (ڈی اے پی) ہے، اس نام میں جو آزاد کا لفظ ہے اس کو میرے ذاتی نام کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔ اس موقع پر ان کے ساتھ پارٹی کے درجنوں لیڈر اور کافی تعداد میں کارکن بھی موجود تھے۔ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کا نام رکھنا وہ بھی جموں و کشمیر کے لئے بہت ہی مشکل کام ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم طلبا کی طرح مقابلہ کریں گے اور ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔ آزاد نے کہا کہ یہ ایک جمہوری پارٹی ہوگی اور جمہوری اصولوں کے عین مطابق چلے گی۔

 

انہوں نے کہا’’آزاد سے مراد میرا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی آزاد ہوگی اور کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوگا‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک پارٹی نہیں ہوگی بلکہ ایک ادارہ ہوگا۔پارٹی کے جھنڈے اور اس کے رنگوں کے بارے میں غلام نبی آزاد نے کہا کہ جھنڈے میں سرسوں رنگ کا مطلب تخلیقی صلاحیت بھی ہے اور تنوع بھی۔ انہوں نے کہا: ’ہمارا ملک اور جموں وکشمیر تنوع سے بھرا ہوا ہے، سفید رنگ کا مطلب امن ہے ، ہم گاندھی جی کے ماننے والے ہیں اور امن کے راستے پر چلیں گے‘۔ان کا کہنا تھا کہ نیلے رنگ کا مطلب گہرا سمندر ہے اس لئے ہم میں بھی گہرائی ہونی چاہئے۔موصوف نے کہا کہ پارٹی میں باقاعدہ انتخابات ہوں گے اور ہم اپنی سطح پر مقابلہ کریں گے۔انہوں نے کہا: ’ہمارا کسی پارٹی کے ساتھ مقابلہ نہیں ہے ہم اسی طرح مقابلہ کریں گے جس طرح طلبا کلاس روم میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے عوام طاقت کا سرچشمہ ہے وہی ہماری تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔

 

آزاد نے کہا کہ میرے نزدیک ہندو، مسلم سکھ اور عیسائی ایک ہی دل کے چار خانے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پارٹی میں پچاس فیصد ٹکیٹیں نوجوانوں کو دی جائیں گی۔دفعہ 370 کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’میں نے کہا کہ اگر کوئی وزیر اعظم نریندر مودی یا وزیر داخلہ امیت شاہ کو راضی کرے گا لیکن مجھے اتنا اثر و رسوخ نہیں ہے ، میں ایسا نہیں کرسکتا ہو ںکیونکہ اس وقت میرے پاس اتنی طاقت نہیں ہے‘۔موصوف لیڈر نے کہا کہ دفعہ370 الحاق سے مربوط تھا اور 70 برسوں تک نافذ العمل رہا۔انہوں نے کہا کہ اب عدالت عظمیٰ میں اس کی شنوائی ہوگی، دیکھتے ہیں کہ کیا ہوگا۔کانگریس کے بارے میں پوچھے جانے پر ان کا کہنا تھا: ’میں اس پارٹی کے ساتھ طویل عرصے تک وابستہ رہا لیکن میں کالج دنوں سے ہی گاندھی کا ماننے والا رہا ہوں‘۔قومی شاہراہ پر میوہ ٹرکوں کو روکنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں غلام نبی آزاد نے کہا کہ قومی شاہراہ پر ایمبولنسز کی طرح میوہ سے لدی ٹرکوں کو ترجیحی بنیادوں پر چلنے کی اجازت ہونی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم ایمبولنس کو راستہ دیتے ہیں اسی طرح میوہ سے بھری ٹرک کو بھی راستہ دیا جانا چاہئے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن کسانوں کو بارشوں یا ژالہ باری سے فصلوں کو نقصان ہوا حکومت کو چاہئے کہ ان کو معاوضہ دے۔