تُوّکل علی اللہ (Trust In Allah ) غور طلب

ہارون ابن رشید

وَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ ۚ وَكَفىٰ بِاللَّهِ وَكيلًا (سوره الأحزاب۔ آیت، ۳) یعنی ’’اور اللہ پر بھروسہ رکھو ، اگر تم واقعی مومن ہو۔‘‘
مایوسی تو کفر ہے کیونکہ جب ابلیس نے نافرمانی کی تھی ربّ کی، تب اس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کر دوں گا اور جو مایوس ہو جائے گا، وہ میرےگروہ کا حصہ بن جائے گا۔ اور تب اللّہ پاک نے فرمایا تھا، میرا بندہ میری رحمت سے کھبی مایوس نہیـــــــں ہوگا۔اس لیے مایوس ہوکر اللہ اللہ سے رابطہ ختم نہیں کرنا چاہیے۔جب آپ اس سے رابطے میں رہتے ہو تو وہ نامعلوم سے ایسے اسباب پیدا کرنا شروع کر دیتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔جب گفتگو میں ربّ رہنے لگتا ہے تو وہ آپ میں عجیب سی کشش پیدا کر دیتا ہے عجیب سی طاقت دے دیتا ہے ۔ پھر انسان ہر آزمائش سےلڑ جاتا ہےاُسے لوگوں کا ڈر نہیں رہتا،اور جس کے پاس اللہ ہو،جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے تواسکو کسی اور کا ڈر ہو بھی کیوں؟
بھروسہ اگر اللہ تعالی پر ہو
تو ٹوٹنے کا وقت ہی نہیں آتا
ﷲ پر بھروسہ’’توکّل‘‘ کہلاتا ہے۔ا ﷲ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ ا ﷲ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔ توکّل کو’’فقر‘‘ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ مرشد کا پہلا سبق بھی یہی ہوتا ہے اور ایک طالبِ مولیٰ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ متوکّل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں بار بار اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:’’اسی پر توکّل کرو اگر تم مسلم ہو۔‘‘ (سورۃ یونس۔ 84)حضرت نوح علیہ السلام سے جب ساری قوم پھر جاتی ہے، ان سےمخالفت اور عداوت کا اظہار کرتی ہے تو آپؑ فرماتے ہیں:’’میرا تو ﷲ پر توکّل ہے تم سب اپنی تدبیریں کر لو۔ ‘‘(سورۃ یونس۔71)حضرت یعقوب علیہ السلام جب بنیامین کو مصر بھیجنے لگے، تب ان کے بھائیوں سے عہد لیا اور عہد لینے کے بعد فرمایا:’’حکم توا ﷲ کا ہے دوسرے کا نہیں۔ میرا اسی پر توکّل ہے اور متوکّل لوگوں کو بھی اسی پر اعتماد کرنا چاہیے۔‘‘(سورۃ یوسف۔67)
سورہ نمل میں ہے: ’’اﷲ پر ہی توکّل کرو۔‘‘سورۃ طلاق میں ہے: ’’جس نے پر توکّل کیا اس کیلئے ﷲ کافی ہے۔‘‘سورۃ آلِ عمران میں ہے: ’’اگر ﷲتمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکے گا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ایسا ہے جو تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو توا ﷲ پر ہی توکّل کرنا چاہیے۔‘‘
رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ رزق ہر جگہ عام ہے جو جہاں ہو، اُسے وہیں پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ ایک مقام سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے توکّل کے باعث انہیں وہیں روزی پہنچانے کے اسباب پیدا فرمادیتا ہے، جس طرح پرندوں اور جانوروں کو اللہ تعالیٰ ہر جگہ روزی مہیا کر دیتا ہے ۔ رزق حاصل کرنے کے لئے انسان کو اللہ پر توکّل کر نا چاہیے۔
توکل علی اللہ، صادقین کی عبادت اور مخلصین کا راستہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء المرسلین اور اولیاء المؤمنین کو اس کا حکم دیا۔ توکل علی اللہ اہل ِ ایمان کی وہ صفت ہے، جس کی بنا پر وہ پوری انسانیت کی قیادت کرتے ہیں۔ مومن کا ایمانی تقاضا ہے کہ وہ صرف اللہ پر توکل کرے۔ قرآن ِ کریم ’’توکل علی اللہ‘‘ کو ایک مستقل عنوان دیتا ہے، اور کہتا ہے: ’’وعلی ربّھم یتوکلون‘‘ (۴۲:۳۶)’’اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘مومن یہ سمجھتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی شخص اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا، اور یہاں اللہ کے اذن کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، لہٰذا وہ اللہ پر توکل کرتا ہے۔ یہی اس کا یقین بھی ہے اور بھروسہ بھی! وہ نہ کسی اور سے امید رکھتا ہے نہ کسی کے خوف کا شکار ہوتا ہے۔ مشکلات اس کے راستے میں آجائیں تو بڑی پامردی سے ان کا مقابلہ کرتا ہے، نہ اس کا سر کسی کے آگے جھکتا ہے نہ وہ اکڑ کر چلتا ہے، وہ ایک مطمئن نفس کی سی زندگی گزارتا ہے، نہ خوشحالی اس کے انداز کو تبدیل کرتی ہے نہ بدحالی۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اللہ پر بھروسا رکھو اگر تم مومن ہو‘‘۔ (المائدہ، ۲۳)
اللہ تعالیٰ پر بھروسے کی قدرو قیمت یہ ہے کہ یہ صفت بندے کو جرأت مند بنا دیتی ہے اور وہ بڑے سے بڑے جبار کو بھی خاطر میں نہیں۔ ہر مشکل میں اِک ہتھیار ،میرے پاس توکل علی اللہ ہے۔
[email protected]