تنہائی کے نقصانات فکر انگیز

احمد الحبیب

ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور فرد کی دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ فرد کو متحرک رکھنے کے لئے اسلامی تعلیمات مکمل (یعنی انسانیت کی فلاح و بہبود میں لگے رہنا) اور ہر وقت درس دیتی ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہے، بہت سے واقعات سے اس کا حوالہ ملتا ہے۔
دوسرا اسلام کی اجتماعی تعلیمات پر عمل کرنے کا درس یہی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرے، اس کے دکھ سکھ، غم و خوشی اور رنج و الم میں برابر شریک ہو، حتی کہ اپنی ضرورتوں کو قربان کرکے دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرے، تاکہ اس کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔نماز اجتماعی اعمال میں سے ایک بڑا عمل ہے، اس میں جہاں ہماری روزمرہ زندگی کے دیگر درس پائے جاتے ہیں، وہیں تنہائی ختم کرنے کا بھی درس ملتا ہے۔ مسجد میں جانا، لوگوں سے ملنا جلنا اور ایک دوسرے کی خیر و عافیت دریافت کرنا تنہائی جیسے مرض کے خاتمہ کا پیش خیمہ ہے۔ لہٰذا انسانوں سے میل جول، ان کے کام آنا، ان کے دکھ اور سکھ میں شامل ہونے کے سبب انسان تنہائی سے چھٹکارا پاسکتا ہے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے اس کو نجات حاصل ہوسکتی ہے۔
حالیہ دنوں ماہرین نفسیات نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تنہائی ایک نیا قاتل ہے، لوگوں سے روابط آدمی کو کئی امراض سے بچاتے ہیں، جب کہ سماجی عدم رابطہ یا تنہائی اتنی ہی مہلک ہوتی ہے، جتنا کہ ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور سگریٹ نوشی۔ نفسیات کے ماہر طبیب شوارٹز کا کہنا ہے کہ تنہائی مغرب اور بالخصوص امریکہ میں ایک بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ بالغوں کی ایک خاصی تعداد (خاص طورپر معمر افراد) تنہا رہتی ہے۔ ۱۹۹۰ء کے اعداد و شمار کے مطابق تنہا رہنے والوں کی تعداد کل آبادی کا ۳۶فیصد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنہائی کی وجہ یہ ہے کہ اہل مغرب خود کفیل ہونے پر فخر کرتے ہیں اور بڑھاپے میں کسی کے دست نگر رہنے سے انھیں شرم محسوس ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسری ثقافتوں مثلاً مشرقی ثقافتوں میں دوسروں کا سہارا حاصل کرنا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔واضح رہے کہ تنہائی کو پستی (ڈپریشن) سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ پستی اور تنہائی دونوں میں افسردگی ہوتی ہے، لیکن تنہا آدمی کسی وقت بھی تنہائی کا حصار توڑکر باہر نکل سکتا ہے، جب کہ پستی کا مریض ایسا نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی شخص تنہا رہ کر تخلیقی کام کرسکے تو یہ اچھی اور بڑی خوشی کی بات ہے، لیکن شواہد یہ بتاتے ہیں کہ جن لوگوں کے معاشرہ کے لوگوں سے روابط ہوتے ہیں، وہ صحت مند رہتے ہیں اور لمبی عمر پاتے ہیں۔
انسان ایک سماجی جانور ہے۔ یہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہتا ہے اور ایسا نہ ہو تو مختلف طبی و نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے افراد جو تنہا زندگی گزارنا پسند کرتے ہوں، کسی اجنبی شہر میں اپنوں سے دور رہتے ہوں وغیرہ ،ان میں امراض قلب، فالج اور بلڈ پریشر سمیت دیگر کئی بیماریوں کا امکان ان افراد کی نسبت دوگنا ہوتا ہے جو اپنوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہوں، اور اس کے علاوہ تنہاآدمی پر شیطان بآسانی قابو پا لیتا ہے جس کے نتیجہ میں تنہا آدمی بہت سارے گناہوں کا مرتکب ہو سکتا ہے، جو اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی خراب کر دیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہفتے میں صرف 2 گھنٹے کیلئے رضا کارانہ سماجی خدمات انجام دینا اکیلے پن کے احساس میں کمی جبکہ اس کے منفی اثرات سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔یہ تحقیق جرنلز آف جرنٹالوجی سوشل سائنسز میں شائع کی گئی ہے جس میں حال ہی میں بیوہ ہونے والی خواتین کو شامل کیا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رضاکارانہ خدمات انجام دینے کے دوران آپ مختلف کمیونٹیز کے افراد سے ملتے ہیں، ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کے اثرات دل اور دماغ پر بالکل ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے اہل خانہ، عزیزوں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے سے ہوتے ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رضا کارانہ خدمات چونکہ جسمانی طور پر بھی متحرک کرتی ہیں لہٰذا جسم میں خون کی روانی تیز ہوتی ہے جو اداسی، یاسیت اور دکھ کے جذبات کو کم کرتی ہے۔واضح رہے کہ 40 سال سے زائد عمر کے افراد کا تنہا رہنا ان کی دماغی صحت پر بدترین اثرات مرتب کرتا ہے اور تنہائی کا زہر ان کی قبل از وقت موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
تنہائی کے منفی اثرات دونوں اقسام کے افراد کو یکساں طور پر متاثر کرتے ہیں، ایک وہ جو شروع سے تنہا رہ رہے ہوں، اور دوسرے وہ جو کسی وجہ سے اپنے اپنوں سے علیحدگی کے بعد تنہا زندگی گزار رہے ہوں۔ ماہرین نے آگاہ کیا ہے کہ تنہائی کے منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے باقاعدہ رضاکارانہ خدمات انجام دی جائیں، تب ہی یہ تنہائی کے خلاف مؤثر ہتھیار ثابت ہوگا۔ سال میں ایک یا 2 بار انجام دی گئی سماجی خدمات اس سلسلے میں بے فائدہ ثابت ہوں گی۔
رابطہ۔7780958951
[email protected]