تعلیم کی اہمیت اور محرومی کا درد فکر و ادراک

سید محمد مشرّف شاہ

 

آج کے وقت میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ تعلیم ہی انسانی زندگی کو سنوارتی ہے اور اس کی بدولت ایک بہتر معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت سب کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ یہ انسان کا حق ہے جو اس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔یہ تعلیم ہی ہے جس کی بدولت انسان اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے۔اس کی بدولت انسان خدا شناسی کا مصداق بن سکتا ہے۔اس کے حصول کو دنیا کے کسی بھی مذہب نے ناجائز قرار نہیں دیا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو دنیا کے تمام ادیان کے بانی و سرکردہ لوگ تعلیم کے حصول میں اعلی مقام کے حامل تھے۔دنیا کی متعدد اقوام کی کامیابی و کامرانی کے پیچھے تعلیم ہی کا اصل عمل شامل حال رہا ہے۔اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیںبلکہ یورپ میں اعلی تعلیم کاپہلا ادارہ تو افلا طو ن نے یونان میں قائم کیا تھا لیکن بعد میں 330 قبل مسیح میں مصر کا شہر سکندریہ وجود میں آنے کے بعد درس و تدریس کا مرکز بن گیا۔

لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے معاشرے میںتعلیم آج بھی ہماری اصل ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔اس کی اہمیت جتنی زیادہ ہے ہم اتنے ہی بے حس ہیں۔اگرچہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے لیکن عام تعلیم کی اہمیت بھی کم نہیںہوئی ہے۔ کمپیوٹر بھی وہی چلاسکتا ہے جس کو لکھنا پڑھنا آتا ہوگا۔ انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری، اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضابن چکا ہے۔ تعلیم کی اس قدر اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے لگ بھگ تمام ممالک کے اندراس کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔وہاں کی سرکاروں نے تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اپنے اپنے ممالک میں متعدد جگہوں پر اسکول، کالج، اور یونیورسٹیاں قائم کیں ہیں جو تعلیم دینے میں ہمہ وقت پیش پیش رہتی ہیں۔ اس کی فراہمی کے لیے قابل اساتذہ کا تقرر بھی لازمی کیا جاتا ہے۔

ایسے پرکشش ماحول کے اندر تعلیم فراہم کر کے بڑے بڑے سائنس دان، ریاض دان اور طبی ماہرین پیدا کیے جاتے ہیں جو قوم کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ الغرض تعلیم کو بروئے کار لانے کے لیے دنیا کے متعدد ممالک کے اندر بہترین انتظامات قائم کیے گئے اور مزید قائم کیے جا رہے ہیں۔تعلیمی سلسلے میں وقت کے ساتھ ساتھ بہترین تبدیلیاں آئیں جو گزشتہ تعلیمی نظام سے بہت بہتر ثابت بھی ہوئیں۔ تعلیمی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2019ء؁کے دوران وبائی مرض کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تعلیمی سلسلے معطل ہوئے تو انٹر نیٹ خدمات کی بدولت طلباء نے آن لائن تعلیم حاصل کی۔

تعلیم کی فراہمی میں طلباء کے لئے مفید تبدیلیاں لائی گئیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ میں کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں تعلیم کا رجحان بہت کم ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ نہ کے برابر ہے۔شہر پونچھ سے چند کلو میٹر کی مسافت پر گاؤں کنوئیاں آباد ہے جو اپر کنوئیاں اور لور کنوئیاںمیں منقسم ہے۔ لور کنوئیاں شہر پونچھ کے قریب ہے لیکن اپر کنوئیاں کے لئے چند کلو میٹر کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے۔اپر کنوئیاں کے دھڑہ پنج ککڑیاں کی عوام آج کے تعلیم یافتہ دور میں بھی اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے ترس رہی ہے۔وہاں کے عوام کا کہنا ہے کہ یہاں پر کوئی ڈھنگ کا اسکول نہیں ہے کہ جس میں ہمارے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔

مقامی سماجی کارکن چوہدری محمد یونس کا کہناہے کہ ہمارے اس علاقہ کے اندر تعلیمی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے ۔یہاں پر صرف تین اسکول ہیں۔ یہاںمڈل اسکول دھڑہ اپر کنوئیاں جہاں پر تقریباً 80 سے90 بچے زیر تعلیم ہیں اور اسکول کے اندر اساتذہ کی تعداد4 ہے جو اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسکول میں ایک دفتر، ایک رسوئی، چار کلاس رومز ہیں جن میں سے دو خستہ حالت میں ہیں۔ ایک میدان ہے جو نہ ہی کھیلنے کے قابل ہے اور نہ ہی پریڈ اور مارننگ اسمبلی وغیرہ کے قابل ہے۔ اس کی ایک عمارت تقریبا 20 سال سے زیر تعمیر ہے جو اب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچی ہے۔ ایک مڈل اسکول ہے جو وارڈ نمبر 4,6 مشترکہ میں ہے، جس میں تقریباً 40 سے 50 طلباء زیر تعلیم ہیں۔ یہاں کی سڑک کی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ روزانہ تقریبا 5سے6 کلو میٹر پیدل چل کر اسکول آتے ہیں۔ ایک پرائمری اسکول پنج ککڑیاں میں ہے، جس میں تقریبا 40سے50 طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں جہاں اساتذہ کی کل تعداد 2 ہے ۔ انہوں نے مزید کہنا ہے کہ یہاں کے اسکولوں میں مڈل تک کی تعلیم ہوتی ہے جبکہ یہاں کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ ہے کہ یہاںسکینڈری تعلیم کے لئے اسکول کے اندر نویں اور دسویں جماعت کو لایا جائے تاکہ بچوں کو مشکلات پیش نہ آئیں۔

اس سلسلے میں مقامی سابقہ پنچ محمد بشیر نے بتایا کہ بچوں کو روزانہ 5سے6 کلو میٹر پیدل چل کرسکینڈری اور ہائر سکینڈری تعلیم کے لئے پہنچ جانا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہاں پر سکینڈری اور ہائیرسکینڈری تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے، 63 سالہ مقامی شخص محمد لطیف نے بتایا کہ 30 سے 40 بچیاں سکینڈری اور ہائر سکینڈری تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ہی چھوڑ چکی ہیں۔جبکہ کچھ بچیاں سکینڈری اور ہائر سکینڈری تعلیم  پانے کے لئے روزانہ تقریبا ًپانچ سے زائد کلو میٹر کا سفر طے کرکےپونچھ جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مقامی عوام کاانتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ ہمارے بچوں کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں تاکہ ان کے مستقبل بھی تابناک بن سکیں ۔

پونچھ جموں(رابطہ 9350461877)