تعلیم اور ہم آہنگی کی ثقافت تہذیب

محمد حسین شیرانی

جہاں ایک طرف قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کے خلاف سماجی اور سیاسی طور پر نفرت کی ہوا کو سیاست کی طاقت سے پھیلایا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف آئے دن ایسی خبریں ہمیں سماجی میڈیا کے پلیٹ فارم سے ملتی رہتی ہیں جہاں ذات و مذہب کے تعصب سے اٹھ کر اور علاقہ و زبان یا رنگ و لباس کی نفرتی دیوار سے باہر آکر انسان اور انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کے نظریات اور ثقافت کا احترام کرتے ہوئے یکجہتی کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ کبھی کوئی ہندو کسی مسلم کی مدد کے لئے تو کبھی کوئی مسلم کسی ہندو کی مدد کے لئے اپنے آپ کو آگے رکھتا ہوا نظر آتاہے۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کئی ایسی حیران کن خبریں بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے کے مذہب کی تعلیم میں بڑھتی دلچسپی بھی نفرت کی اس آگ پر پانی ڈالتی نظر آتی ہے۔ اسلامی دینی معلومات کے کوئز کمپٹیشن ہوں یا کالج اور یونیوسٹیوں میں کورس میں داخلے ہوں، یہ خبریں ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہوتی ہیں کہ مذہب کی بنیادی تعلیم اور انسانی رواداری کی ہندوستانی ثقافت کو اتنی آسانی سے کسی بھی طرح کی نفرت و تشدد کے نذر نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح پچھلی دو دہائی میں ایک درجن سے زیادہ مخصوص واقعے ہوئے ہیں جہاں مسلم طلباء نے ہندو مذہب کی تعلیم کے خصوصی مقابلوں میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ ان واقعات نے انسانیت کا درد رکھنے والے بلا تفریق مذہب و ملت جملہ ہندستانی باشندوں کے دلوں کو نہ صرف راحت پہنچائی ہے بلکہ نفرت کے اندھیروں میں محبت کی امید کے چراغوں کو جلائے رکھنے کا کام کیا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ایسی خبریں آج ہماری مین اسٹریم میڈیا کی سرخیوں اور مباحثوں کا حصہ نہیں بن پاتیں۔
کیرالہ کے ملاپورم میں ’’رامائن مہینہ‘‘ کے موقع پر ڈی سی بوکس کے ذریعہ منعقدہ ریاستی سطح کے رامائن کوئز میں کیرالہ کے مسلم نوجوانوںکی ابھرتی ہوئی فتح حاصل کرنے کی کہانی نے ایک بار پھر ہندستان کی قدیم ہم آہنگی ثقافت کو اجاگر کیا۔ جیتنے والے باسط اور جابر شمالی کیرالہ کے علاقے وبلانجیری میں کے کے ایس ایم اسلامک اینڈ آرٹس کالج میں آٹھ سالہ وافی پروگرام کے اپنے پانچویں اور آخری سال میں ہیں۔ طلبا نے کہا کہ اگرچہ وہ مہا کاویا کے علم کے ساتھ پروان چڑھے ہیں، لیکن وافی کورس میں داخلہ لینے کے بعد ہی، جس میں تمام بڑے مذاہب کی تعلیمات شامل ہیں، انہوں نے رامائن اور ہندومت کو تفصیل سے پڑھنا اور مطالعہ کرنا شروع کیا۔
یہ خبر پوری قوم کے لیے حیران کن تھی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ مسلمان ہندستان میں ہندو مذہب یا کسی دوسرے عقیدے کے بارے میں مشکل سے سیکھتے ہیں اور ان کا علم رکھتے ہیں۔ اس واقعہ نے ثابت کیا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کے پاس رامائن اور مہابھارت کے بارے میں اہم معلومات ہیں کیونکہ یہ ہندستان کی ثقافتی تاریخ اور روایت کے ضروری حصے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ دو اہم ابتدائی تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے: ایک تعلیم حاصل کرنا اور دوسرا ہندستان کی ہم آہنگی کی ثقافت کا احترام کرنا۔ ہم آہنگی کی ثقافت کا احترام اور اہمیت تعلیم سے حاصل ہوتی ہے، اور ہندستانی مسلمانوں نے صدیوں سے برصغیر میںدوسرے عقائد کے ساتھ اسلام کے تعامل کے آغاز سے ہی ہندستان کی ہم آہنگی کی ثقافت کو پسند کیا ہے۔ اس بات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندستانی صوفی مبلغین نے یہا ں تبلیغ کرتے ہوئے کسی ثقافتی تبدیلی کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اسلام کو ہندستان کے کثیر الثقافتی معاشرے کا حصہ بنایا اور ہندستانی مسلمان اس ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہیں۔
پہلی شرط جس پر روشنی ڈالی گئی وہ ہے ہندستانی مسلمانوں میں تعلیم کی اہمیت۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کو ہندستانی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں کوئی علم یا معلومات نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیمی اداروں جیسے مرکزی یونیورسٹیوں اور قومی اہمیت کے دیگر اداروں جیسے آئی آئی ٹی،این آئی ٹی اور IIMمیں نمائندگی بہت کم ہے۔ لہٰذا اس بات کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ ان اداروں میں ہندستانی مسلم طلبا کے داخلہ کو بڑھانے کے لیے پالیسی مداخلت کی ضرورت ہے۔ گہرے علم کے حامل قابل اور تعلیم یافتہ مسلم نوجوان ہندستانی مسلم معاشرے کے ان پہلوئوں کو اجاگر کریں گے جن کو اب تک کوریج نہیں دی گئی ہے۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ مسلمانوں کے رامائن کوئز مقابلہ جیتنے جیسی خبروں کو ان مسائل سے کم توجہ دی جاتی ہے جوسماج کے اس پسماندہ طبقے کے خلاف نفرت اورتعصب پھیلاتے ہیں۔ ہندستانی مسلمانوں کی بھی ترقی، اقتصادی ،سماجی قبولیت، شناخت اور قومی عمل میں شرکت کی خواہشات ہیں اور وہ اپنی ثقافت اور تاریخ پر فخر محسوس کرتے ہیں۔مسلمانوں کے لیے مرکزی دھارے میں اعلیٰ تعلیم میں یکساں سلوک کرنے کے لیے، ایک خصوصی انتظام اور مثبت اقدام کی ضرورت ہے۔ 2019-20تک، مسلمانوں کی تعداد کا صرف ایک تہائی حصہ ہے جنہیں ان کی آبادی کی بنیاد پر کالج میں داخلہ لینا چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے والوں کا فیصد نکالاجائے تو یہ 2010-11میں 2.53%سے بڑھ کر 2019-20میں 5.45%ہوگیا، اور اسی مدت کے اندر، فیکلٹی ممبران کا فیصد 2.95%سے بڑھ کر 5.55%ہو گیا۔ مطلق تعداد میں بھی مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب موقع ملتا ہے مسلمان فٹ ہونے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ دریں اثنا، یہ پریشان کن ہے، کیونکہ حال ہی میں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کا داخلہ کم تیزی سے بڑھ رہا ہے، 120.09فیصد 2010-11سے 2014-15تک، صرف36.96% 2014-15 سے 2019-20تک۔ اسی طرح مسلم فیکلٹی ممبران کی تعداد بھی اسی طرح کی دہائیوں کے دوران110.36%سے 76%تک گر گئی۔
بالترتیب 8.41%اور 14.5%کے اندراج کی شرح کے ساتھ مرکزی ادارے اور حکومت کے تعاون سے چلنے والی ڈیمڈ یونیورسٹیاں مسلمانوں کی بہتر نمائندگی کر سکتی ہیں۔ اگر جائزہ لیںتو ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد جیسے کئی اداروں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جو اپنے کردار اور ورثے کی وجہ سے مسلمانوں کی غیر متناسب تعداد میں طلبہ کی حیثیت سے زیادہ ہیں۔ تاہم، ان کی یکجہتی نوعیت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے میں ان کی شرکت بہت کم ہے۔NIT,IISER,IITاورIIMsسمیت اہم اداروں میں مسلمانوں کی تعداد صرف 1.92%ہے۔ہندستانی مسلمانوں کو ایسے مسائل کے بارے میں بیداری بڑھانے کے مواقع تلاش کرنے ہوں گے جن پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ یہ کمیونٹی کی بنیاد پر تعلیم یافتہ افراد کافریضہ ہے کہ وہ تعلیم کو ترجیح دینے کے لئے لوگوں میں آگاہی کے لیے مناسب انتظامات کریں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے اور اپنی برادری کے لیے توجہ مرکوز کرائیں۔ جیسا کہ باسط اور جابر کی مثال نے ہمیں دکھایا ہے کہ تعلیم ہندستان کی ہم آہنگی کی ثقافت کے میدان میں نام روشن کر سکتی ہے۔
[email protected]