! تعزیت ۔متاثرین کی تسلی ہی کا ذریعہ نہیں فکرو فہم

ذکی نور عظیم ندوی

موت کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور انسانی زندگی کا اہم ترین مرحلہ ہے، جس میں انسان عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف اور دارالاعمال سے بدلہ والے دن کی طرف روانہ ہوتا ہے ، مزید کچھ کرنے کے امکانات معدوم اور صرف اللہ کے رحم و کرم کا سہارا ہوتا ہے ۔ مرحوم اپنے بعد اپنے اہل خانہ ،متعلقین اور اپنی ذات سے مربوط دیگرلوگوں کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے۔ اس کے انتقال سے اہل خانہ، متعلقین اور مربوط افراد رنج و الم سے دوچار ہوتے ہیں، کوئی تڑپتا ہے تو کوئی بلکتا ہے ،کوئی آنسو چھپانے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی آنسو دکھانےکی فکر، گویا غم و اندوہ کا ایسا ماحول جس میں کھانا پینا اور دیگر بنیادی ضرورتیں بھی نہیں سوجھتیں، بیوی بیوگی، کمسن بچے یتیمی اور بڑے بے سہارا ہو جاتےہیں۔
اسلام فطری ضرورتوں کی تکمیل پر مبنی نظام حیات ہونے کی وجہ سےاس موقع پرمرحوم کی مغفرت، رفع درجات کی دعا، پسماندگان کے دکھ درد میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے ، انھیں صبر کی تلقین اوردلاسہ دینے ، جنازہ میں شرکت، تدفین میں موجودگی، اہل میت کے یہاں تین دن تک کھانے کی فراہمی کی تعلیم دیتا ہےاور غیر شرعی ماتم، نوحہ کنی،اظہار غم کےمصنوعی طریقوں کو بے مقصد اور فضول سمجھتے ہوئے عام طور پرتین دن سے زائد سوگ منانے سے منع کرتا ہے ۔
گویا اہل میت سے تعزیت و اظہار ہمدردی اور ابتدائی دنوں میں ان کی بنیادی ضرورتوں کی فکر انسانی ضرورت ہے جن کو اسلام نے اس قدر باعث اجر وثواب بنا دیا کہ سخت دل افراد بھی ان موقعوں پر کوئی کوتاہی نہیں کرتے،اسی لئے اظہار تعزیت دیگر شعائر اسلام کے مقابلہ نسبتاً زیادہ معمول بہ بن گیا۔ جس کی وجہ مذکورہ بالا اسباب کے ساتھ عصر حاضر میں اس بڑی سماجی ضرورت سے بیشمار شخصی، سماجی اور دیگر مقاصد کا حصول اور کوتاہی کی شکل میں مختلف اعتبارات سے نقصان اور عروج و ترقی کے مقاصدفوت ہونے کے اندیشے اور خطرات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے اس کی طرف خصوصی توجہ اور اہتمام کا ماحول بن گیا، جس پر اجر و ثواب ملےیا نا ملے لیکن مطلوبہ مقاصد کے حصول کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
مرحومین الگ الگ حیثیتوں، رتبوں اور میدان سے تعلق رکھتے ہیں، لوگ ان کی وفات سے متاثرین و اہل خانہ سے تعزیت کی سنت یا رسم انجام دینے کی فکر کرتے ہیں ۔ ان سے تعلق نہ رکھنے والے بلکہ ان سے پوری طرح نا واقف افراد بھی عوامی ، سماجی یا سیاسی میدان سےتعلق کی بنا پر اس سنت پر رسماً عمل کرنے سے نہیں چوکتے کیونکہ لوگوں تک رسائی اور پہنچ کیلئے رنج و الم کاماحول خوشی کے مواقع سے بھی زیادہ مفید ہے کہ خوشی میں دعوت نامہ کےبغیر جانا بے حسی اور بے شرمی تصور کی جا سکتی ہے لیکن رنج و الم کے موقعہ پر جانے کے لئے دعوت نامہ اور بلاوے کی ضرورت نہیں اور وہاں جاکر مضبوط موجودگی درج کی جاسکتی ہے ۔
غیر سرکاری تعلیمی، سماجی اور ملی میدانوں میں کام کر رہی تنظیمیں اپنی تشہیر کیسے کریں؟ لہٰذا کسی صاحب ثروت و صاحب حیثیت و مرتبہ شخصیت کا انتقال ان کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں کہ ان کے تعلق سے تعزیتی بیانات سے وہ لوگوں کو اپنی سرگرمیوں کی نہ سہی لیکن اپنے نام اور شناخت سے تو واقف کروا ہی سکتی ہیں ۔ سوشل میڈیا بھی تعزیتی پوسٹوں کی زیادہ حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ان کیReachبھی زیادہ ہوتی ہے اور لائک وکمنٹ بھی زیادہ آتے ہیں ، واٹس ایپ گروپوں میں شریک خاموش ممبران کے لئے یہ سنہری فرصت ہوتی ہے کہ کم از کم اس موقع پر ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ زبان سے سنت کے مطابق بھلے نہ کہیں لیکن لکھ تو دیں ہی، خواہ اس سے پوسٹوں کی تعداد اور ان کا پڑھنا ناقابل برداشت بوجھ بن جائے یا پوسٹوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر ہی ممبران سمجھ جائیں کہ ہو نہ ہو کوئی ایسا بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، جس کو پر کرنا ممکن نہیں۔
تعزیت کے سلسلہ میں مختلف اعتبارات سے قیادت کے منصب پر فائز رہنمابھی ’’حالت قعود‘‘ میں ہونے اور جمود و تعطل کے سارے الزام غلط ثابت کرکے پوری طرح سرگرم ہوجاتے ہیں۔ چند ماہ قبل مشہور بین الاقوامی شخصیت کے انتقال کے بعد ایک بڑے رہنما کے تین اداروں کی جانب سے الگ الگ تعزیتی بیانات خود میری نظروں سے گزرے اور چونکہ مرحوم کا تعلق بہت سے ایسے اداروں سے تھا، جن سے خط و کتابت ان کی اور اداروں کی تقویت کا سبب ہے ،اس لئے یہ خدشہ بھی غلط نہیں کہ ان اداروں کو الگ الگ تعزیتی خطوط لکھنے میں دسیوں لیٹر پیڈ کی قربانی تو دینی ہی پڑی ہو گی ۔مختلف بڑے اداروں کے الگ الگ عہدہ دار اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دیں یا نہیں لیکن ایسے موقعوں پر ان کا پہلی فرصت میں الگ الگ تعزیتی بیانات جاری کرکے ’’سابقین اولین‘‘ میں ہونے کا مقابلہ قابل دید ہوتا ہے،جس سے اہل خانہ اور پسماندگان کا غم ہلکا کرنے یا بھلا دینے میں بھی بڑی مدد ملتی ہے کہ وہ اپنا غم بھول کر جائزہ لینے لگیں کہ کس کا بیان پہلے آیا، کون سی تعزیت زیادہ اچھی ہے اور کس میں زیادہ تعلق کا اظہار کیا گیا ہے؟
عصر حاضر میں بدلتے معیار اور ضرورتوں کے ساتھ تعزیت بھی اس وقت تک غیر مؤثر رہتی ہے اور مرحوم سے قرب تعلق کی نفی کرتی ہے جب تک مرحوم کے ساتھ کوئی نئی تصویر نہ ہو ۔اسی لئے وہ شخصیات جن کی تعزیت اخبار کی زینت بن سکتی ہے ان کے ساتھ لوگوں میں سیلفی اور تصویر لےکر اس کو محفوظ رکھنے کا مزاج بھی بڑھ رہا ہے ۔اسی وجہ سے جب کسی کے ساتھ تصویر کشی میں اضافہ ہو تو یہ تشویش غیر فطری نہیں کہ کیا میں اپنی دنیوی عمر مکمل کر چکا ہوں؟ لیکن پھر کسی قدر اطمنان ہوجاتا ہے کہ دنیا سے تو سب کو جانا ہے لیکن میرے بعد لوگ میری تصویروں کے ساتھ مجھ سے اظہار تعلق اور تعزیت تو کریں گے اور کچھ دنوں میں اخبارات کی زینت تو بنتا رہوں گا۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ذکی میاں ! اس وقت موت کا خدشہ زیادہ تکلیف دہ ہونا چاہئے یا تعزیت کی امید اطمنان بخش؟ تو میں کہوں گا کہ اس مرحلہ پر گزرے ایام ،لوگوں کے ساتھ معاملات اور اپنی سابقہ زندگی کا جائزہ لیں ،دعا و استغفار، معاملات کی درستگی، ظلم و زیادتی سے دوری اور اپنے مظلومین سے معافی تلافی کے لئے اس کو ایک الٰہی الارم سمجھیں۔
تعزیت اللہ کے رازق ہونے اور رزق کے نئے اسباب و وسائل پیدا کرنے کی بھی دلیل ہے ۔چھپنے کے خواہش مند افراد ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو تعزیتی اور دوسری خبریں تیار کر کے شائع کروا سکیں ، لہٰذا جب کسی اہم شخص کا انتقال ہوتا ہے تو ایسے افراد پہلے سے ہی تعزیتی خبریں تیار رکھتے ہیں، جس میں مناسب تعزیتی کلمات، مرحوم کے انتقال سے پیدا ہونے والے خلا، اس کی بھر پائی کا عدم امکان اور اگر مرحوم کسی بڑے دینی، تعلیمی یا مذہبی عہدہ دار ہوں تو امت کی یتیمی جیسی باتیں درج ہوتی ہیں ،صرف مرحوم کا نام، تاریخ و فات، پسماندگان کی تعداد ، جنازہ پڑھانے والے کا نام اور مقام تدفین لکھ کراس کو بھیجنا اور چھاپنے کیلئے کسی سے رابطہ ان کی کچھ آمدنی کا نیا وسیلہ بن جاتی ہے۔غرض تعزیت کا مقصد صرف متاثرین و پسماندگان کی تسلی ہی نہیں بلکہ یہ بے شمار ظاہری و مخفی فوائد کا ذریعہ بھی ہے۔
اپنی پوری زندگی اللہ اوررسول ؐکی باتیںنقل کرنےمیں گزارنےوالی مقدس شخصیتوں کی زبان سےتعزیت پر بڑا اطمینان ہوتاہے کہ مرنے کے بعدکے حالات توکوئی نہیں جان سکتا لیکن یہ برگزیدہ شخصیتیں تو ہمیشہ صرف اللہ کی باتیں کرتی ہیں، لہٰذااظہار تعزیت میں ان کے کلمات کو اللہ کا فیصلہ کیوں نہ مانیں لیکن اس طرح اصحاب ثروت وحیثیت تو اطمیان کرسکتے ہیں لیکن شہرت سے دور،خاموش زندگی گزارنے والے، غریب اورمال وحیثیت سے محروم افراد کو یہ خوشخبری کیسے مل سکتی ہے؟
[email protected]