! ترقی کے لئے راستہ چاہئے روئیداد

خواجہ یوسف جمیل ،پونچھ

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہاں کی عوام کو تمام تر بنیادی سہولیات باہم پہنچتی ہوں اور وہ کسی مشکل یا مصیبت سے دوچار نہ ہو بلکہ آزادانہ طریقے سے اپنی زندگی گزارنے پر ملک کا ہر شہری قدرت رکھتا ہو۔ ہمارے ملک کا آئین ہر شہری کو آزادانہ طریقے سے زندگی گزارنے اوراس کو تمام تر بنیادی سہولیات حاصل کرنے کا حق دیتاہے ۔ ملک کی ترقی میں ہر شہری کا برابر کا حق ہے۔سڑک کسی بھی ملک کی ترقی کی جانب بڑھنے والا پہلا قدم ہے۔اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جموں کشمیر کی بہتری کے لئے سال 2022-23 کا بجٹ 35581 کروڑ روپے پیش کیا ۔ اس بجٹ کا مقصد جموں کشمیر کی عوام تک بہتر سہولیات پہنچانا ہے جس میں سڑک بھی شامل ہے۔ گوکہ گزشتہ چند سالوں میں سڑکوں کے تعمیری کاموں میں سرعت لائی گئی ہے اور پردھان منتری سڑک یوجنا کے تحت مختلف دور دراز علاقاجات میں سڑکوں کا کام تو چل رہا ہے لیکن نہ جانے یہ کام سست روی کا شکار کیوں ہیں؟

ہم اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں سڑکیں تعمیر ہیں اور ان سڑکوں پر وقت پر گاڑی نہ ملے تو انسان کتنی پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے ۔اس کے برعکس اگر چہ ان علاقاجات کا معائینہ کیا جائے جہاں ابھی تک سڑکوں کا کوئی معقول نظام نہیں ہے اور ایک بخار کی معمولی سی گولی خریدنے کے لئے بھی بیمار کو کئی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کرنا پڑے تو اس سے بڑی قیامت کیا ہوسکتی ہے۔جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں رابطہ سڑکوں کا ابھی تک بھی کوئی معقول انتظام نہیںہے۔ جس کی وجہ سے یہا ں کی عوام آج بھی پسماندگی کا شکارہے۔ دور دراز علاقاجات میں مقیم لوگوں کو سڑک جیسی بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے متعدد مشکلات کا بیک وقت کا سامنہ کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کے اسکول جانے سے بزرگوں کے ہسپتال پہنچنےتک کا سلسلہ سڑکوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید متاثر ہوتا ہے۔

شہر پونچھ سے محض دس کلومیٹر کی دوری پر بسا گاؤں اپر کنویاں محلہ دھڑاایک ایسا علاقہ ہے جو سڑک نہ ہونے کی وجہ سے شدید پسماندگی کا شکار ہے۔اس گاؤں کے ایک معزز محمد یونس عمر 45 کے مطابق ’’یہ علاقہ شہر کے ساتھ ہو نے کے باوجود بھی پسماندگی کا شکار ہے۔ اسی گاؤں کے ایک اور نوجوان الطاف حسین کا کہنا ہے کہ سال2019  میں ایک سڑک کا کام شروع ہوا تھا جو جغرافیائی طور پر ہمارے گاؤں سے دور ہے اور12  کلومیٹر کی مصافت بنتی ہے۔یہ سڑک محکمہ پی ڈبلو ڈی کی جانب سے تعمیر کی جارہی ہے لیکن ابھی تک یہ نامکمل ہے۔ایک رہائشی

محمد لطیف عمر 63 سال کا کہنا ہے کہ آزادی کے ستر سال گزرجانے کے بعد بھی ہم بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ جو سڑک ہمارے گاؤں کو شہر کے ساتھ جوڑ سکتی ہے اسکی مصافت صرف 6 کلومیٹر کی ہے۔ اس سڑک کا آدھا حصہ تیار بھی ہوچکاہے،لیکن جہاں سڑک کا کام رکا ہوا ہے وہاں محکمہ جنگلات یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ رقبہ جنگلات کا ہے ۔ وہ جگہ صرف 15 فٹ پر مشتمل ہے۔

جبکہ محکمہ مال کے ملازمیں و تحصیلدار حویلی نے کہا ہے کہ یہ اراضی جنگلات محکمہ کے تحت نہیں آتی ہے۔ چار سو گھروں پر مشتمل یہاں کی آبادی کو اس مشکل سے نکالنے کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے۔چنانچہ ووٹ ہمارا بنیادی حق ہے اور ووٹ ڈالنے کے لئے بھی ہمیں کئی کلومیٹر پیدل سفر کر کے پولینگ بوتھ تک جاناپڑتا ہے۔

سڑک نہ ہونے کی وجہ سے جہاں اس علاقے کی عوام کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہیں اسکول تک پہنچنے کے لئے اساتذہ کو شہر سے اس گاؤں تک پیدل جانا پڑتا ہے۔ بچوں کی تعلیم پر بھی اس سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہاں کی عوام نے ضلع انتظامیہ و لیفٹینینٹ گورنر جموں کشمیر سے اپیل کی کہ اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے اور یہاں کی عوام کو سڑک جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائے تا کہ یہاں کے عوام بھی ترقی کی جانب اپنا قدم بڑھا سکیں۔(چرخہ فیچرس)