ترقی سے انکار نہیں ،اعتماد سازی بھی ضروری!

وزیر داخلہ امت شاہ نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ کچھ لوگ انہیں پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن میں واضح کردینا چاہتاہوں کہ میں کشمیر میںدہشت گردی پھیلا نے والے پاکستان سے نہیں بلکہ کشمیر کے نوجوانوں سے کسی بھی مسئلہ پر بات چیت کیلئے تیار ہوں ۔جموںوکشمیر میں خصوصی درجہ دینے والے دفعہ370کی منسوخی کے بعد کشمیر میں پہلی بار بارہمولہ ضلع صدر مقام پر ایک بھاری عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے عبداللہ ،مفتی اور گاندھی خاندانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ستر سال تک حکومت کرنے والے ان خاندانوں نے کشمیری عوام کو دکھ اور مصیبت کے سوا کچھ نہیں دیا اور آج وہ ہم سے حساب مانگ رہے ہیں۔اُن کا کہناتھا کہ 70سال میں جموںوکشمیر میں صرف 15ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کار ی ہوئی جبکہ مودی جی کے تین برسوں میں یہاں56ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ مودی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی جموں و کشمیر میں جمہوریت کو نچلی سطح تک لے جانا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے پہلے یہاں جمہوریت تین خاندانوں، 87 قانون سازوں اور تین ارکان پارلیمنٹ تک محدود تھی تاہم بھاجپا حکومت نے اسے گائوں، 30000 پنچوں اور سرپنچوں تک لے گئی۔وزیر داخلہ کی25منٹ کی تقریر کا بیشتر حصہ حساب لینے اور حساب دینے میں گزرا جس میں انہوںنے جہاں جموںوکشمیر کی سابق حکومتوں کو دہشت گردی ،قتل و غارت ،پتھر بازی کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا اور جواب میں کہا کہ مودی حکومت نے آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی، این آئی ایف ٹی اور این ای ای ٹی کے علاوہ صنعت ،موبائل اور لیپ ٹاپ دئے۔

 

گوکہ یہ ریلی براہ راست کسی الیکشن کا حصہ نہیں تھی لیکن وزیر داخلہ کا لب و لہجہ واضح طور اشارہ کررہا تھا کہ الیکشن کا بگل بجنے والا ہے او ر اس حوالہ سے امت شاہ شاہ نے کہہ بھی دیا کہ ووٹر فہرستوں پر نظر ثانی کا عمل اوردیگر تیاریاں مکمل کے فوراً بعد ہی الیکشن ہونگے۔انہوںنے جس طرح ایک بار پھر گوجر ،بکروال اور پہاڑیو ں کو ریزرویشن دینے کی بات کی تو واضح ہورہا تھا کہ وزیر داخلہ کشمیر میں پارٹی کیلئے ایک ووٹ بنک سے مخاطب ہورہے ہیں ۔بہر کیف انتخابی سیاست کے دائو پیچ سے قطع نظر وزیر داخلہ کی تقریر کا خارجی پہلو بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ نہ صرف ایک سرحدی ضلع میں تقریر کررہے تھے بلکہ وہاں سے سرحد زیادہ دور بھی نہیں تھی اور انہوںنے وہیں سے جہاں اپنی تقریر ختم ہونے کے بعد اوڑی میں ایک جھڑپ کے دوران مارے جانے والے پولیس اہلکار کی قبر پر گل پوشی کی بلکہ اُن کے گھر جاکر پسماندگان سے تعزیت بھی کی جو پاکستان کیلئے بھی کھلا پیغام تھا کہ دہشت گردی کسی بھی صورت برداشت نہیں ہوگی اور اس جنگ میں مارے جانے والے سپاہیوں اور ان کے اہل خانہ کو ملک کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔جلسہ میں بھی جس طرح انہوں نے پاکستان سے بات چیت کرنے سے صاف انکار کردیا ،وہ بھی بلاشبہ روایتی پالیسی کا اعادہ ہی تھا لیکن ساتھ ہی محبوبہ مفتی اور ان جیسے دیگر مقامی سیاستدانوں کیلئے بھی پیغام تھا جو آئے روز پاکستان کے ساتھ بات چیت کے مشورے دیتے پھر رہے ہیں۔وزیر داخلہ اپنی تقریر میں بالکل غیر مبہم تھے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔اب اگر اس کے بعد بھی کوئی بات چیت کا راگ الاپتا رہے تو وہ اپنا ہی وقت ضائع کررہا ہے ۔پاکستان کوپھر پیغام گیا کہ اگر بات کرنی ہے تو پہلے دہشت گردی بند کرو اور اگر دہشت گردی ہی کرنی ہے تو کوئی بات چیت نہیں ہوگی بلکہ دہشت گردی کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔اُن کی تقریر کا ایک حصہ ترقیاتی عمل کے مفصل ذکر پر مشتمل تھا جس میں میڈیکل کالجوں ،ایمز ،سڑک نیٹ ورک ،ریل نیٹ ورک ،ہر گھر بجلی ،ہر گھر نل سے جل ،آیوشمان بھارت گولڈن کارڈ سمیت دیگر فلاحی سکیموںکا بھی ذکر کیا۔وزیر داخلہ نے جتنے بھی کام گنائے ،وہ بلا شبہ زمینی سطح پر ہوئے ہیں اوران سے عوام کو کافی حد تک راحت بھی ملا ہے جبکہ زمینی سطح پر جمہوری اداروں کا قیام بھی ایک تاریخ ساز عمل ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔پنچایتی اور بلدیاتی اداروں کے ہوتے جمہوریت نچلی سطح تک منتقل ہوگئی لیکن اس نظام میںموجود خامیوں کو دور کرنا ہے اور اس نظام سے جڑے لوگوں کو جوابدہ بنا نا ہے تاکہ جمہوریت کے حقیقی ثمرات عوا م تک بنا کسی امتیاز کے پہنچ سکیں۔اسی طرح اعتماد سازی بہت ہی ضروری ہے ۔ترقیاتی عمل سے قطعی انکار نہیںہے لیکن عوام میں اعتماد اور بھروسے کی فضا قائم کرنا بھی ناگزیر ہے کیونکہ اعتماد سازی سے ہی پائیدار ترقی اور دیر پا امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے ۔جب وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ کشمیری عوام سے بات چیت کیلئے تیار ہیں تو ایسا ڈائیلاگ شروع کیاجاناچاہئے تاکہ اُن خدشات کا ازالہ ہوسکے جو مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر نے کشمیر ی عوام کے اذہان میں ڈال دئے ہیں۔ڈائیلاگ سے جہاں ہمیں ایک دوسرے کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد ملے گی وہیں وہ تمام غیر ضروری شکوک و شبہات بھی دور ہونگے جو جان بوجھ کر صرف اس لئے پیدا کئے گئے تاکہ دلّی اورکشمیرکے درمیان دوریاں ہمیشہ موجود رہیں اور ان دوریوں کو مٹانے کے نام پر سیاستدانوںکا ایک ٹولہ اپنی سیاسی روٹیاں سیکتا رہے تاہم اگر دلّی اور کشمیر کے درمیان براہ راست مکالمہ ہوتا ہے تو بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کی دکانیں بند ہونگیں اور کشمیری مین سٹریم سے جڑ کر ترقی کے عمل کا حصہ بن جائیں گے جو آگے چل کر پائیدار امن اور دیرپا خوشحالی پر منتج ہوگا۔