ترجمہ کاری کاعالمی انٹرنیٹ ترجمہ سے صحافتی اصولوں میں بگاڑ،انسانی دخل اندازی لازمی

بلال فرقانی

سرینگر// ترجمہ کے عالمی دن پر،جہاں اس فن اور صنف علم کو دلوں کو جوڑنے کی کلید قرار دیا جاتا ہے،تاہم ماہرین کو اس بات پر تشویش ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ترجمہ کے نتیجے میں اردو زباں و صحافت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ترجمہ کا عالمی دن دنیا بھر میں30ستمبر کو زبان کے پیشہ ور افراد کے احترام اور اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے،اور اس روز ایک پیشہ ور کے طور پر ترجمہ کو اپنانے کے لیے آگاہی دی جاتی ہے۔اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ زبان کے پیشہ ور افراد کو ان کے کام کے لیے اعزاز دیا جا سکے اور ترجمہ کی عالمی اہمیت کو تسلیم کیا جا سکے۔اس سال بین الاقوامی یوم ترجمہ 2022کا موضوع’ایک دنیا بغیر رکاوٹ‘ ہے۔ترجمہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’ترجمہ‘ بات چیت، افہام و تفہیم، تعاون، ترقی، تنازعات کے حل اور اس کے نتیجے میں امن اور خوشحالی کی سہولت فراہم کر کے قوموں،فرقوں،سماج اور ممالک اور ان کے لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

معروف صحافی اور بی بی سی کے مقامی نمائندے ریاض مسرور کا کہنا ہے کہ ترجمہ کاری ایک قدیم علمی صنف ہے،جس کے صدیوں سے بہترین نتائج نکلتے آئے ہیں،تاہم یونانی علوم کا ترجمہ جب عربی اور انگریزی میں ہوا تو اس سے دنیا اور مغربی تہذیب میں ایک علمی نشاۃ ثانیہ واقع ہوا،لیکن ٹیکنالوجی کے عروج کے بعد خاص طور پر مشینی ترجمے کی وجہ سے صحافتی اسلوب بگاڑ کا شکار ہوا۔ان کا کہنا تھا’’ خاص طور پر انگریزی سے اردو میں حاجت مند صحافی اگر دونوں زبانوں پر یکساں عبور نہ رکھتے ہو تو گوگل و غیر سافٹ وئر کے ترجمہ کے بعد عبارت کے معنی اور مطالب بدل جاتے ہیں۔‘‘ محکمہ اطلاعات کے ایک سابق افسر غلام محمد میر(گلال کشمیری) کا کہنا ہے کہ مترجم زبان کو بطور آلہ استعمال کرتے ہوئے دنیا کو جوڑتے ہیں۔ موثر رابطے کے بغیر دنیا میں کوئی امن، خوشحالی اور ترقی حاصل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انٹرنیٹ پر موجود تراجم لفظی ہوتے ہیں،اس لئے اصل ترجمہ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ غلال کشمیری نے اس ترجمہ کے اردو صحافت پر منفی اثرات سے جوڑتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ سے ترجمہ کرکے نا ہی زباں میں وہ چاشنی رہتی ہے اور نا ہی خبر کا اصل مفہوم اور لب لباب باقی رہتا ہے،بلکہ اس سے قارئین بھی تذبذب کا جہاں شکار ہوتے ہیں وہی زباں کو بھی زک پہنچتا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے مدرس ڈاکٹر راشد مقبول کا تاہم کہنا ہے کہ اردو کو کافی وقت سے ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی اور انٹرنیٹ ترجمے سے ایک سہولیت میسر ہوئی۔انہوں نے کہا’’ پہلے پہل اس ترجمے میں کافی خامیاں تھیں،جو اب کسی حد تک بہتر ہوئی ہیں،تاہم اس ترجمے سے مدد اور معاونت حاصل کی جاسکتی ہے،مگر اس میں انسانی دخل اندازی لازمی ہے‘‘۔ ڈاکٹر راشد مقبول نے کہا کہ اردو با محارہ زباں ہے اور انٹرنیٹ ترجمہ میں املا اور انشاء کی غلطیاں ہوسکتی ہیں اور صحت مند جملوں کی کمی ہو سکتی ہے،اس لئے ترجمہ کار پر لازمی ہے کہ وہ اس ترجمے سے سہولیت حاصل کریں،مگر خلاصتہً اس کے املا، انشاء اور جملوں کا ملاحظہ کریں،تاکہ ترجمہ متن کے قریب ہو‘‘۔