ترال کاتاریخی چنار باغ ’’گانگ‘‘ سرکار کی نظروں سے اُوجھل ایک ہی جگہ73جبکہ پورے گائوں میں 110چنار موجود

 سید اعجاز

ترال// ترال قصبہ سے قریب 5کلو میٹر دور ’دنالہ چندری آرہ‘ کے کنارے قریب4کنال اراضی پر پھیلا چنار باغ ایک منفرد جگہ ہونے کے باوجود سرکاری توجہ کا مرکز نہیں بن سکی۔وادی میں محکمہ فلوری کلچر کی جانب سے چھوٹی چھوٹی پارکوں کو جاذب نظر بنایا گیا ہے تاہم اس اہم جگہ کو نظر انداز کیا گیا ۔ تاحال یہ جگہ سرکار کی نظروں سے اوجل ہے، حالانکہ یہاں سکولی بچے پکنک کیلئے بھی آتے ہیں۔یہ چنارباغ نہ صرف ترال قصبہ بلکہ آس پاس مقامات کیلئے بھی بہت اہم ہے۔یہاں ایک ہی جگہ 73 چنار کے درخت ہیں جبکہ پورے گائوں میں کل110چنار موجود ہیں ۔مقامی لوگوں نے بتایا جب بھی یہاں کوئی سیاست دان ووٹ مانگنے کے لئے آتاتھا، تو لوگ اس باغ کی تعمیر کا مطالبہ کرتے تھے جبکہ دہائیوں کے مطالبات کے باجود علاقے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر میں بجبہاڑہ کے پادشاہی باغ کے بعد یہ ایک منفرد اورواحد ایسی جگہ ہے جہاں ایک ہی مقام پر اتنی بڑی تعداد میں چنار موجود ہیں۔

 

 

 

مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ باغ کی چند سال قبل تار بندی کی گئی اور اس کے بعدکوئی بھی اقدام نہیںاٹھایا گیا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’ گانگ‘ باغ کو فوری طور ایک بہترین مقام کے طور پر فروغ دیا جائے تاکہ یہ مقامی لوگوں کیلئے اور زیادہ پر کشش جگہ بن سکے۔ پارک میں بزرگ عالم دین خواجہ قائم رفیقی کا مقبرہ ہے اور ایک خوبصورت چشمہ بھی موجود ہے۔اس مناسبت سے لوگوں کا یہاں آنا معمول ہے لیکن کوئی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ ضلع پلوامہ میں کی گئی سرکاری سروے میں کہا گیا ہے کہ چاروں تحصیلوں یعنی اونتی پورہ، پلوامہ، پانپور اور ترال میں چنار کے درختوں کی کل تعداد 4358 ہے جن میں سے 2406 صحت مند اور 1952 بوڑھے ہو چکے ہیں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پلوامہ تحصیل میں چنار کے 2829، تحصیل اونتی پورہ میں 507، پانپور تحصیل میں 437 اور تحصیل ترال میں 585 درخت تھے۔ ضلع میں چنار کے درخت کی مجموعی تنزلی 44.79 فیصد ہے۔ سب سے زیادہ تنزلی(غیر صحت مند حالت) پانپور تحصیل (48.51%) میں دیکھی گئی، اس کے بعد اونتی پورہ تحصیل (45.36%)، تحصیل پلوامہ (45.35%) اور سب سے کم (38.8%)تحصیل ترال میں دیکھی گئی۔

 

 

 

۔مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ درختوںکی کمی کی شرح میں 1990 سے اضافہ ہوا ۔ 1990-2000 تک کمی کی شرح 7.8% سے بڑھ کر 2000-2014 تک 12.3% ہوگئی۔ اس دوران چنار کے صرف 159 نئے درخت لگائے گئے۔ سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ چنار کے درخت کی تنزلی اور کمی کا عمل تشویشناک حد تک جاری ہے جو کہ ایک تشویشناک امر ہے۔ مزید برآں، ضلع کے تقریبا ًتمام اونچائی والے دیہاتوں اور بستیوں کے بالائی حصوںمیں درختوں کو ختم کیا گیا ہے ۔ماہرین کے مطابق وادی کشمیر میں چناروں کی ایک بڑی تعداد گزشتہ چند سال کے دوران کاٹی گئی۔ جس کی وجہ سے یہ قومی درخت صفحہ ہستی سے غائب ہورہا ہے ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اب کل وادی کشمیر میں صرف15ہزار چنار کے درخت موجود ہیں جبکہ نئے درختوں کو لگانے کے لئے بھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے ۔