تحفظ جنگلات کا عارضی معاہدہ عالمی سیاست

مظہراقبال مظہر، لندن

دنیا میں جنگلات کُل زمینی رقبے کے 31 فیصد پر مشتمل ہیں۔ یہ رقبہ تیزی سے سکڑ رہا ہے، اور جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے عالمی سیاسی منظرنامہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔ 6 دسمبر 2022 کو یورپی کونسل اور یورپی پارلیمنٹ نے یورپی یونین کے ممالک میں زرعی شعبے سے منسلک مصنوعات کی درآمد ، برآمد اور ترسیل کے حوالے سے ایک عارضی معاہدہ کیا ہے۔اس معاہدے کے تحت زرعی شعبے کی مصنوعات کو جنگلات کے تحفظ کے قوانین سے منسلک کر دیا گیا ہے۔
معاہدے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ صارفین ایسی مصنوعات خریدتے وقت نادانستہ طور پر ایسی کسی ماحول دشمن کارروائی کا حصہ نہ بنیں جو جنگل کے ماحولیاتی نظام کو تباہی کی طر ف لے جاتی ہو۔اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہےکہ جنگلات کے غیر ذمہ دارانہ اور مجرمانہ کٹاؤ والے علاقوں سے پیداوار حاصل نہ کی گئی ہو۔
یاد رہے کہ درختوں کی ظالمانہ اور غیرمحفوظ کٹائی کی وجہ سے دنیا بھر کے جنگلات انحطاط پذیر ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا کا کوئی بھی خطہ اس عمل سے محفوظ نہیں رہا۔ اور جنگلات پر محیط رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے ،موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کے نقصانات بڑھ رہے ہیں۔ یہی عوامل آج کی دنیا کے دو اہم ماحولیاتی چیلنجزبھی ہیں۔
فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا تخمینہ ہے کہ 1990 اور 2020 کے درمیان یورپی یونین سے بھی بڑا رقبہ جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔ اس خطرناک تبدیلی کی وجہ سے یورپی اور ترقی یافتہ ممالک کی سیاسی قیادتیں گزشتہ دو برس سے سر جوڑ کر بیٹھی تھیں ۔یہ سیاسی معاہدہ یورپی کمیشن کی 2021 کی تجاویز کے صرف 12 ماہ بعد ہوا ہے۔ گزشتہ برس گلاسگو میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں سرکردہ رہنماؤ ں نے دنیا میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے جنگلات کے فوری تحفظ اور حیاتیاتی تنوع کے کردار کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اس حوالے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور سرسبز رقبوں میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کی تجاویز سامنے آئی تھیں۔6 دسمبر کو طے پانے والے معاہدہ کے تحت زرعی شعبے سے منسلک کمپنیوں کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ یہ یقین دہانی کروانا ہو گی کہ جن ممالک کو یورپی یونین سے برآمدات جا رہی ہیں اور جن ممالک کی زرعی شعبے سے حاصل ہونے والی درآمدات یورپی یونین میں داخل ہو رہی ہیں وہ ان علاقوں میں تیار نہیں ہو رہی جہاں جنگلات تلف کرنے کے حوالے سے سخت قوانین نافذ ہیں۔
جب نئے قوانین لاگو ہوں گے تو متعلقہ کمپنیوں کو سختی سے احتیاط برتنی ہوگی ۔ وہ مصنوعات جو اس حوالے سے متاثر ہو ں گی ،ان میں پام آئل، چاکلیٹ، گوشت ، سویا، کافی، کوکو، لکڑی، فرنیچر اور ربڑ یا ان سے بنی ہوئی مصنوعات شامل ہیں۔ متعلقہ کمپنیوں کو درآمدی اور برآمدی ممالک کے زرعی شعبے کے بارے میں بھی درست جغرافیائی معلومات جمع کرنے کی ضرورت ہوگی اور جہاں اجناس کاشت کی جاتی ہیں ان جگہوں اور متعلقہ اجناس سے متعلقہ تمام ڈیٹا تک دسترس حاصل کرنا ہوگی تاکہ ضرورت پڑنے پر ان مصنوعات کی تیاری کے تمام مراحل کی مکمل جانچ کی جاسکے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ ایسے ہی قوانین ہیں جو مالیاتی شعبے کی نگرانی کرتے ہیں ۔ ان کے تحت فیٹف جیسے فریم ورک کے ذریعے رکن ممالک میں مالیاتی شعبے میں ہونے والی ترسیلات کا مکمل ریکارڈ یقینی بنایا جاتا ہے۔ جنگلات کے متعلق یورپی ممالک کے اس معاہدے کے تحت رکن ممالک کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ قواعد کی تعمیل نہ کرنے کی صور ت میں مؤثر طور پر سخت سزائیں دی جائیں گی۔
چونکہ یورپی یونین ایک بڑی معیشت ہے ۔ اس لیے یہ قدم عالمی سطح پر جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کے انحطاط کو روکنے میں مدد کرے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ایک معاہدے کی وجہ سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور حیاتیاتی تنوع کو ہونے والے نقصان کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔یہ بڑا معاہدہ حیاتیاتی تنوع پر اہم سنگ میل کانفرنس کے آغاز سے عین قبل سامنے آیا ہے، جو آنے والی دہائیوں کے لیے فطرت کے تحفظ کے اہداف کی وضاحت کے لیے 7 دسمبر سے کینیڈا کے شہر میں مونٹریال میں منعقد ہو رہی ہے۔ جنگلات کی بقا کے حوالے سے عالمی کوششوں کے تناظر میں 15ویں حیاتیاتی تنوع کانفرنس سے قبل اس سیاسی معاہدے کی خبر انتہائی اہم ہے۔
حال ہی میں 650 سائنسدانوں نے یورپی اور امریکی قیادت کو ایک چونکا دینے والا خط لکھا ہے۔ اس خط کے ذریعے ایک دردمندانہ اپیل کی گئی ہے کہ توانائی کے حصول کے لیے درختوں (لکڑی) کو جلانا بند کیا جائے۔ اس خط کے محرکین عام لوگ نہیں ہیں بلکہ چوٹی کے سائنسدان ہیں۔ یہ سائنس دان عالمی رہنماؤں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ توانائی پیدا کرنے کے لیے درختوں کو جلانا بند کر دیں کیونکہ اس سے جنگلی حیات کے لیے قیمتی رہائش گاہیں تباہ ہو رہی ہیں۔ خدارا صدیوں سے جاری قدرت کے نظام پر رحم کریں۔
یہ خط میں امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیر اعظم رشی سنک اور یورپی کمیشن کے صدر ارسولا وون ڈیر سمیت عالمی رہنماؤں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر عالمی رہنما مونٹریال میں ہونے والے اجلاس میں 2030 تک زمین اور سمندر کے 30 فیصد حصے کی حفاظت پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو پھر انہیں ایسی توانائی پر انحصار ختم کرنے کا عہد کرنا ہوگا جو درختوں (لکڑی وغیرہ) کو جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔
پروفیسر الیگزینڈر انٹونیلی اس خط کے سرکردہ مصنف اور کیو گارڈنز میں سائنس کے ڈائریکٹر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’توانائی کی حفاظت کو یقینی بنانا ایک بڑا سماجی چیلنج ہے، لیکن اس کا جواب ہمارے قیمتی جنگلات کو جلانا نہیں ہے۔ اس قسم کی توانائی کو گرین انرجی کا نام دینا گمراہ کن ہے اس لیے کہ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو عالمی حیاتیاتی تنوع کے بحران کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔‘‘لکڑی سے آگ جلانے یا بائیو انرجی کے لیے درختوں کو کاٹنے سے کاربن کا اخراج ہوتا ہے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس رفتار سے درختوں کا صفایا ہور ہا ہے اس رفتار سے نئے درخت نہیں لگائے جارہے ہیں۔
ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق مونٹریال کی حیاتیاتی تنوع کانفرنس کے انعقاد سے ایک دن قبل یورپی ممالک کے معاہدے کا سامنے آنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ کیونکہ اس معاہدے کے حوالے سے یورپی یونین کو تجارتی روابط والے ممالک کی جانب سے سے بھرپور مزاحمت کا سامنا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر چند دن قبل ہی کینیڈا نے جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے یورپی یونین کے مجوزہ قوانین پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تجارت پر غیر ضروری پابندیوں کے مترادف ہے ۔ اس سے تجارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ جبکہ ماحول دوست تنظیموں نے اس معاہدے کی حمایت نہ کرنے والے ممالک کے موقف کو انتہائی شرمناک قرار دیا تھا۔ ابھی تک یہ معاہدہ عارضی اور غیر رسمی ہے تاہم قوی امکان ہے کہ بہت جلد اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔
Twitter@MIMazhar
<[email protected]>