بے ریا عاشق افسانہ

طارق شبنم

’’صاحب ۔۔۔۔۔۔ کل آپ کو میری طرف سے دعوت ہے ،دوپہر کا کھانا میرے گھر پر کھا لینا‘‘ ۔
میں جونہی رکشے میں سوار ہوا تو رانجھا نے رکشہ سٹارٹ کرتے ہوئے کہا ۔
’’کیوں ۔۔۔۔۔۔ کل آپ کی ہیر سے منگنی ہے یاشادی ؟‘‘
میں نے مذاق کرتے ہوئے پھبتی اڑائی۔
’’ صاحب ۔۔۔۔۔ کل میری بیٹی کی منگنی ہے‘‘ ۔
رانجھا نے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔لفظ بیٹی سن کر میں چونک گیا ،کیوں کہ میری جانکاری کے مطابق وہ ایک ناکام عاشق تھا اور اس کی شا دی بھی نہیں ہوئی تھی ۔میں دل ہی دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ رکشہ میرے دفتر کے سامنے رک گیا ۔
’’صاحب ۔۔۔۔۔۔میں کل ایک بجے خود ہی آپ کو لینے آئوں گا‘‘ ۔
اس نے کہا اور چلا گیا ۔ اتفاق سے دوسرے دن چھٹی تھی اور میں نے بھی رانجھا کے گھر جانے کا من بنالیا۔ اس کا اصل نام راجہ تھا لیکن اپنے پرائے سب اسے رانجھا کے نام سے ہی پکارتے تھے۔ آٹو رکشہ ڈرائیور،رانجھا سے قریب ایک سال سے میری شنا سائی تھی ۔جب میرا تبادلہ اس شہر میں ہوا تھا تو یہاں سب سے پہلے میری ملاقات رانجھا سے ہی ہوئی تھی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے پہلی باربس اڈے میں اسے اپنے دفتر،جہاں مجھے جوائین کرنا تھا ، کا پتہ پوچھا تھا۔
’’ صاحب ۔۔۔۔۔۔ آپ بے فکر ہو کر بیٹھیے ،صرف دس منٹ کا راستہ ہے‘‘ ۔
اُس نے میرا سامان رکشے میں رکھتے ہوئے ہمدردانہ لہجے میں کہا اور ر کشہ سٹارٹ کرکے چل پڑا۔ دوران سفر میں اس کے حلئے کا جائیزہ لینے لگا ،لمبے گنگریالے بے ترتیب بال ،بڑھی ہوئی داڑھی ،آنکھوں میں بیکراں سا پنہاں درد،منُہ میں سگریٹ ،معمولی لیکن صاف ستھرا لباس ۔اس کے چہرے بشرے سے ہی لگتا تھا کہ وہ کوئی دیوانہ ہے اور دیوانگی نے اسے وقت سے پہلے ہی بوڑھا کردیا ہے ۔
’’لیجئے صاحب ۔۔۔۔۔۔ یہ ہے آپ کا دفتر‘‘ ۔
اُس نے رکشے کو بریک لگاتے ہوئے کہا ۔
’’ کتنا کرایہ ہے‘‘۔
میں نے جیب سے پچاس کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ اس نے نوٹ لیا اور بیس کا نوٹ واپس کرتے ہوئے شرمیلے لہجے میں گویا ہوا ۔
’’صاحب ۔۔۔۔۔۔ ہم فل سواری کے پچاس روپے لیتے ہیں ،لیکن آپ آج پہلی بار آئے ہیں اس لئے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’نہیں نہیں آپ رکھ لیجئے‘‘ ۔
کہتے ہوئے میں رکشے سے اُترا ،اس نے میرے کہے بغیر ہی میرا سامان اٹھایا اور میرے ساتھ ہی دفتر کے اندر داخل ہو گیا ۔ سامان رکھ کر کچھ ملازموں،جن سے اس کی جان پہچان تھی ، سے علیک سلیک کرکے چلا گیا۔ بعد ازاں میں نے اپنے ایک دفتری ساتھی کی وساطت سے بس اڈے کے قریب ہی ایک کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کرلی اور اب روز رانجھا سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ میںآفس جانے اور واپس آنے کے لئے اسی کے رکشے میں سوار ہونا پسند کرتا تھا کیوں کہ وہ خلوص کی دولت سے مالا مال اور انسان دوستی کے جذبے سے لبریزانتہائی صاف گواور کم گو انسان تھا ۔اس کا رویہ ہر ایک کے ساتھ نہایت ہی ہمدردانہ تھا،سب کی عزت کرتا تھا ،کسی کے پاس کرایہ نہیں ہوتا تو اسے بغیر سوال وجواب کے نہ صرف رکشے میں بٹھاتا بلکہ اس کی مالی مدد بھی کرتاتھا ،رکشے میں بیٹھنے والوں کو اکثر پانی اور مشروبات پلاتا تھا۔اس دوران میں اپنے دفتری ساتھیوں اور دیگر مقامی لوگوں سے رانجھا کی پوری کہانی بھی جان چکا تھا اورجس کے مطابق وہ ایک اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا نہایت ہی ذہین اور قابل نوجوان تھا اور جوانی کے دنوں میں بلا کا خوب صورت تھا ۔کالج کی بیشتر لڑکیاں اس پر جان چھڑکتی تھیں لیکن وہ کالج میں زیر تعلیم نوری نامی لڑکی،جو خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی، کے زُلفوں کا اسیر ہو گیا ،دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ان کا پیار اتنا مشہور تھا کہ کالج میں انہیں ہیر رانجھا کے نام سے پکارا جاتا تھا ،لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب رانجھا نے اپنے گھر والوں سے اپنے پیار کا ذکر کیا تو اس کے والد ،جو ایک بڑاسرمایہ دار تھا ،نے اس پیار کی اس وجہ سے سخت مخالفت کی کیوں کہ نوری ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔رانجھا ،جو کسی بھی قیمت پر رعنائیوں سے بھر پور ،مستانہ نگاہوں والی نوری،جس کے وجود پرہر وقت سپیدئہ سحر کا ہالہ چھایا رہتا تھا ، کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لاکھ کوششوں کے با وجود بھی جب اس کا والد اس شادی کے لئے راضی نہیں ہواتو ایک دن تیش میں آکر رانجھا گھر چھوڑ کر بھاگ گیا جس وجہ سے اس کی پڑھائی بھی چھوٹی اور وہ اپنا پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا ،جب کہ نوری نے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔اس دوران دونوں آزادی سے پیار کے اڑن کھٹولے پر سوار ہو کر سپنوں کے آسمانوں کی خوب سیر بھی کیا کرتے تھے ۔وقت کا پرندہ پرواز کرتا رہا یہاں تک کہ نوری پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک اچھے سرکاری عہدے پر فائیز ہوگئی ۔نوری کو سرکاری نوکری ملنے پر رانجھا کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ،اس کے دل کے تار جھنجھنا اٹھے ۔ وہ جلد سے جلد اس کے ساتھ اپنا گھر بسانے کے خواب سجانے لگا اور ایک دن شاداں و فرحاں کچھ تحائف لے کر اُس سے ملنے گیا۔
’’نوری۔۔۔۔۔ اب تمہیں نوکری بھی مل گئی ،اپنے والدین سے بات کرلو تاکہ ہم شادی کے بندھن میں بندھ کر اپنا ایک الگ سنسار بسائیں ‘‘۔
کچھ دیر نوری سے باتیں کرنے کے بعد رانجھا نے میٹھے لہجے میں اپنے دل کی بات کہہ ڈالی ۔
’’نہیں راجہ۔۔۔۔۔۔ یہ ممکن نہیں ہے‘‘ ۔
نوری نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا ۔
’’نوری ۔۔۔۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہوں ،میں نے تمہارے لئے سب کچھ چھوڑ دیا ہے اور میں تمہارے بغیر جی نہیں سکوں گا‘‘ ۔
رانجھا ،جسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا نے انتہائی عاجزانہ لہجے میں کہا ۔
’’دیکھو رانجھا ۔۔۔۔۔۔ پیار تو میں بھی تم سے کرتی ہوں لیکن تمہارے موجودہ حالات دیکھ کر میرے گھر والے ہرگز اس شادی کے لئے راضی نہیں ہونگے‘‘ ۔
’’لیکن نوری ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں ،آئی ایم سوری‘‘ ۔
نوری نے اس کی بات کاٹتے ہوئے ناک سکیٹر کر کہا اور اٹھ کر چلی گئی ۔ نوری کے نشتر نما جملے تیر بن کر رانجھا کے جگر میں پیوست ہو گئے،درد کی ایک تیز ٹیس اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ نوری کی اس بے وفائی اور کج ادائی سے رانجھا ٹوٹ کر رہ گیا اور کئی مہینوں تک بیمار رہا جس دوران اس کے چند دوستوں نے اس کا علاج معالجہ کرایا۔ ٹھیک ہونے کے بعدوہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے آٹو رکشہ لے کر چلانے لگا جب کہ اپنا غم غلط کرنے کے لئے چرس پینے لگا ۔اس دوران نوری نے اپنے ایک دفتری ساتھی سے شادی کرکے گھر بسایا لیکن کچھ مہینوں بعد ہی دونوں میں ان بن ہو گئی اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی اس طرح نوری طلاق لے کر واپس اپنے والدین کے گھر پہنچ گئی ۔نوری کی بے وفائی کے سبب رانجھا دنیا سے ایسے بیزار ہوگیا جیسے اس کی اپنی کوئی خواہش ہی نہ رہی ہو ۔ لیکن ایک بات ہر ایک کی زبان پر تھی کہ اس واقعہ کے بعد لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ بے حد مشفقانہ اور ہمدردانہ ہو گیا۔میں دیر رات تک رانجھا کی زندگی کی مختلف پہلوئوں پر سوچتا رہا لیکن اس بات نے مجھے سخت الجھن میں ڈال دیا کہ جب رانجھا کی شادی ہی نہیں ہوئی تو اس کی بیٹی کہاں سے ہوئی ؟ کافی سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ شاید اس کے کسی دوست یا رشتہ دار کی بیٹی ہو گی ۔
دوسرے دن میں ٹھیک ایک بجے تیار ہوکر بیٹھ گیا تو کچھ دیر بعد ہی رانجھا آٹو رکشہ لے کر آگیا اور مجھے اپنے ساتھ لے کر چلا گیا ۔وہ ایک چھوٹا سامکان تھا ۔ایک کمرہ ،جہاں سات آٹھ مہمان بیٹھے تھے،میں مجھے بٹھایاگیا جب کہ رانجھا کی عمر سے بڑی ایک عورت اور کچھ لڑکے دوڑ دھوپ میں مصروف تھے ۔کچھ دیر بعد مہمانوں کے ساتھ میں نے بھی دعوت کھائی جس کے بعد رانجھا بھی آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا اور مہمانوں،جو بقول رانجھا کے اس کی بیٹی کے سسرال والے تھے سے میرا تعارف کرایااور ان سے کچھ دیر تک باتیں بھی ہوتی رہیں جس کے بعد وہ جانے کے لئے اٹھے ۔
’’صاحب ۔۔۔۔۔۔ یہ میری گھر والی ہے‘‘ ۔
رانجھا نے دوڑ دھوپ کرنے والی عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے کہا اور خود مہمانوں کو رخصت کرنے کے لئے ان کے ساتھ نکلا ۔
’’بھابھی جی ۔۔۔۔۔۔ آپ نے رانجھا سے کب شادی کی ہے ؟‘‘
علیک سلیک کے بعد میں نے اس عورت سے پوچھا ۔
’’یہی کوئی تین سال پہلے ‘‘۔
اس نے مختصر سا جواب دیا تو میں شش و پنج میں مبتلا ہوکر رانجھا کی بیٹی جو اس کے پاس ہی بیٹھی تھی کی طرف دیکھنے لگا ۔
’’ رانجھا سے میری دوسری شادی ہوئی ہے ۔دراصل میرا پہلا شوہر فوت ہوا اور میں بیوہ ہو کر اس بیٹی کو لے کر سخت مصیبت میں مبتلا تھی۔ ہم ماں بیٹی ،در در کی ٹھوکریں کھا رہیں تھیں،رانجھا اللہ کی رضا کے لئے ہر طرح سے ہماری مدد کر رہا تھاجس پر کچھ با شعور لوگوں نے اعتراض جتایا اور ہم دونوں پر انگلیاں اٹھانا شروع کردیں ۔پھر ایک دن رانجھا نے مجھے شادی کا پیغام بھیجا جس کے سبب میں الجھن میں پڑھ گئی کیوں کہ ایک تو وہ عمر میں مجھ سے آٹھ نو سال چھوٹا تھا جب کہ طلاق کے بعد نوری نے رانجھا کو نہ صرف شادی کی پیش کش کی تھی بلکہ بہت منت سماجت بھی کی تھی لیکن رانجھا ،جو کبھی اس پر مر مٹنے کو تیار تھا ،نے پایہ حقارت سے اسے بھی ٹھکرایا تھا، آخرکچھ دن بعد ہی رانجھا نے اپنے دل کی بات بتاکر مجھے اس الجھن سے نکال دیا‘‘ ۔
’’میں کسی اور غرض سے نہیں بلکہ صرف آپ ماں بیٹیوں کا سہارا بننے کی غرض سے آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘‘ ۔
میں نے ہاں کردی ،اس طرح وہ فرشتہ رحمت بن کر ہماری زندگی میں آیا، ہماری زندگی سکون سے گزرنے لگی اور ہم پر انگلیاں اٹھانے والوں کے منہ بھی بند ہو گئے‘‘ ۔
’’بھابھی ۔۔۔۔۔۔ آپ رانجھاکی پچھلی زندگی کے بارے میں جانتی ہیں؟‘‘
’’جی ،میں ان کے بارے میں سب جانتی ہوں‘‘ ۔
’’وہ اتنا کیسے بدل گیا ؟‘‘
’’نوری کی بے وفائی سے رانجھا اچھی طرح سے سمجھ گیا کہ یہ دنیاایک دھوکہ ہے ،سب اپنے مطلب کے یار ہیں، یہاں کسی کو سچا پیار نہیں مل سکتا۔وہ دنیا سے بے رغبت ہو گیا، خواہشوں کے کشکول کو توڑ کر دنیا کے جھمیلوں اورلذت پرستی کے ظلمت کدوںسے خود کو آزاد کرکے سچے عشق کی تلاش میں لگ گیااورآخرعشق کی دنیا میں اتنا آگے نکل گیا کہ دن رات بے ریا طریقے سے اپنے معشوق کو راضی رکھنے میں ہی لگا رہتا ہے‘‘ ۔
اس نے فخریہ لہجے میں رانجھا کی تعریف کرتے ہوئے کہاجس دوران اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔
���
اجس بانڈی پورہ(193502)کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛9906526432