بیٹی ۔ والدین کے لئےرحمت یا زحمت؟ فہم و فراست

سیدہ عطیہ تبسم
ہمارا معاشرہ ایک ایسی مالا کی طرح ہے جس میں کئی رشتوں کے موتی پروئے گئے ہیں۔ ہر رشتہ منفرد ہے، ہر کردار اہم ہے۔ ان حسین کرداروں میں کہیں مرد کا کردار اعلیٰ ہے تو کہیں عورت رشتوں کو تقویت بخشنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ یہ کردار ماں کا ہو تو عظیم ہے، بہن کا ہو تو شفیق ہے اور بیوی کا ہو تو پاکیزہ ہے۔ مگر بیٹی کا کردار ایک عجب سی پہیلی ہے ۔ عورت کو خالق نے ہر رنگ میں ایک الگ مقام عطا کیا ہے ، مگر کہیں باعث رحمت قرار نہیں دیا ۔ بس ایک بیٹی کو اپنے والدین کے لئے رحمت کہا گیا ہے ۔ اس پہیلی کی سب سے دلکش کڑی یہ ہے کہ بیٹی کو خاص طور پر والد کے لئے رحمت کہا گیا ہے۔ یہ لفظ رحمت بیٹی کے کردار کو خاص بنانے کے لیے کافی ہے۔ رحمت دراصل اللہ کی صفت ہے ۔دین و دنیا میں ہر قسم کی بخشش اور سلامتی کے حصول کو رحمت کہتے ہیں ۔ یہ لفظ ’’رحمت‘‘ بہت گہرا ہے ۔ اس کے کئی معنی ہیں۔ کسی پر اس کی حیثیت سے زیادہ مہربان ہونے کو رحمت کہتے ہیں، رحمت احسان ہے اور کرم ہے۔ رحمت کو اکثروبیشتر بارش کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔جب جب رحمت کی بارش برستی ہے تو زمین کو نرم کر دیتی ہے، زرخیز اور ہرا بھرا بنا دیتی ہے، پھر وہ زمین ہر بھوکے اور پیاسے کو نوازتی ہے۔ اس میں شفقت کا پیغام ہوتا ہے۔بیٹیاں بھی بالکل اسی بارش کی طرح ہوتی ہیں ۔ جب تک ان کی نسبت رحمان اور رحیم ربّ سے جڑی رہتی ہے تب تک وہ رحمت کی بارش بن کر برستی ہیں۔ ایسی بارش جس میں زندگی ہوتی ہے، جو پاک رزق لے کر آتی ہے۔ جس میں احسان فلاح اور بہبودی چھپی ہوتی ہے۔ یہ والدین کے دل کا قرار اور گھر کی بہار ہوتی ہے۔ اس رحمت کی زندہ مثال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔  یہ نبی کریمؐ کی وہ شہزادی ہے جو ہر مشکل میں اپنے بابا کے ساتھ کھڑی رہی۔ وہ رحمت اللعالمین کے گھر کی رحمت بنی۔ ہر بیٹی تب ہی باعث رحمت ہے جب وہ فاطمہ کے کردار میں ڈھلی ہوئی ہو۔ حضرت فاطمہ وہ ہے جو دن بھر چکی پیستی گھر کے کام کرتی اور شام کو عبادت میں مگن ہو جاتی۔ پھر دعاؤں میں امت محمدیؐ کے لئے بخشش مانگتی ،جب پوچھا جاتا کہ فاطمہ کچھ اپنے گھر کے لیے بھی مانگ لو تو جواب دیتی، میری دعاؤں پر سب سے زیادہ حق میرے بابا کی اُمت کا ہے۔
جب یہ بیٹی فاطمی کردار سے باہر نکل آتی ہے اور دین کی ہر تعلیم کو پسے پشت چھوڑ دیتی ہے تو اس سے رحمت چھن جاتی ہے۔ جب وہ عاجزی کا ہر سجدہ کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو اسے ملعون قرار دیا جاتا ہے۔ ابلیس نے جب آدم کا سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا تو اللہ نے اس کی سانسیں نہیں چھینی ،نہ ہی اس پر عذاب نازل کیا۔ اللہ نے اسے ملعون قرار دیا ،اس کو رجیم کا لقب دے دیا ۔ ملعون پر لعنت اور ملامت کی جاتی ہے ، ملعون سے ہر وہ شے دور کی جاتی ہے جو اس کے سکون کا باعث بنے۔ پھر اس کے حق میں ذلت ہوتی ہے، رسوائی ہوتی ہے، اضطراب ہوتا ہے اور دائمی بے بسی ہوتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے جب جب اس بیٹی نے کسی بھی طاغوتی نظام کو فالو کیا ہے، تب تک اس کو رحمت سے بے دخل کر دیا گیا۔ پھر یہ بارش بن کر برستی تو ہے مگر رحمت کی نہیں بلکہ زحمت کی۔ ایسی بارش جو گھروں کو تباہ کر دیتی ہے، جو زمین سے رزق چھین لیتی ہے، جو نرمی کو دلوں سے نکال پھینکتی ہے، جسے بس برسنا آتا ہے تھمنا نہیں، جو آنے والی نسلوں کے لیے ویرانیاں اور تباہیاں لے کر آتی ہے، جسے ہر طرف سے دھتکار دیا جاتا ہے، جس کے حصے میں ذلت اور خواری آتی ہے۔ جب یہ بیٹی اس والد کے مدمقابل آ کر کھڑی ہو جاتی ہے جو اس کے ہاتھ چومنے کے لئے بے قرار رہتا تھا تو اس سے شفقت اور تعظیم چلی جاتی ہے۔ وہ بھائی جو اس کی ڈھال تھا ، جب یہ اس کی برابری کرنے پر بضد ہو جاتی ہے تو اس سے وقار اور سکون چھن جاتا ہے۔ جب یہ رحمت کی ہر حد کو پار کر کے نکل آتی ہے تو اسے رجم کر دیا جاتا ہے، کبھی الفاظ سے تو کبھی افعال سے۔ اسے محض ایک پراپرٹی قرار دیا جاتا ہے اور خرید و فروخت کا سامان سمجھا جاتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے دور ِجاہلیت میں سمجھا جاتا تھا۔
دین کی تعلیمات ایک بیٹی کو اصل معنوں میں رحمت کا ذریعہ بنا تی ہیں۔ رحمت حسین ہوتی ہے اور اپنے ارد گرد کی ہر شے کو مزین کر دیتی ہے۔ ان تعلیمات کے دائرے سے باہر نکل کر وہ کبھی ملعون قرار دی جاتی ہے تو کبھی رجم کر دی جاتی ہے۔ اب آپشنز دونوں ہیں ۔ یہ ایک بیٹی اور اس کی تربیت ڈیسائیڈ (decide)کرتی ہے کہ اسے کیابنناہے رحمت یا زحمت؟