بہتر حکمرانی کی ضلعی درجہ بندی ایک سال بعد بھی زمینی سطح پر کچھ بدلانہیں

 

ٹھیک ایک سال قبل وزیر داخلہ امت شاہ نے جموںوکشمیر کیلئے عملی طور ملک کی پہلی ڈسٹرکٹ گڈ گورننس انڈیکس ( ڈی جی جی آئی ) جاری کی تھی ۔ جامع درجہ بندی میں جموں ضلع سرفہرست رہنے میں کامیاب ہوا تھاجبکہ اسکے بعد ڈوڈہ ، سانبہ ، پلوامہ اور سرینگر کے اضلاع تھے۔گوکہ انڈیکس میں انفرادی زمروں کے تحت بھی اضلاع کی درجہ بندی کی گئی تھی اور تمام دس شعبوں کیلئے علیحدہ بھی اضلاع کی درجہ بندی ہوئی تھی تاہم مجموعی درجہ بندی میں گاندر بل 6 ویں مقام پر ، اننت ناگ 7 ویں ، بارہمولہ ضلع 8 ویں مقام پر ، کٹھوعہ 9 ویں اور کپواڑہ 10 ویں مقام پرتھے ۔ انڈیکس میں آخری 10 اضلاع میں کشتواڑ 11 ویں نمبر پر تھا جس کے بعد بڈگام ، ادھم پور ، ریاسی ، بانڈی پورہ، رام بن ، کولگام ، شوپیاں ، پونچھ اور راجوری کے اضلاع سب سے نیچے تھے۔گوکہ یہ درجہ بندی سامنے آنے کے فوراً بعد اضلاع کو بہتر کارکردگی کیلئے مبارک بادی کے پیغامات آنے لگے تھے اور متعلقہ اضلاع کے ضلع ترقیاتی کمشنروں کو بہتر درجہ بندی کا سہرا دیاگیا تھاتاہم عوامی سطح پر اس حوالہ سے کوئی جوش وخروش نظر نہیں آیاتھا کیونکہ زمینی سطح پر کچھ زیادہ نہیں بدلا تھا اور ایک سال بعد بھی کچھ بدلا ہوا قطعی نظر نہیں آرہا ہے ۔بہتر حکمرانی یا گڈ گورننس کے اعتبار سے اضلاع کی درجہ بندی سے اضلاع کے درمیان صحت مند مقابلہ ہوتا جس سے یقینی طور پرشہریوں کو بہت فائدہ ہو تااگر اس درجہ بندی کو اعدادوشمار کے کاغذی گورکھ دھندے سے باہر نکال کر زمینی سطح پرمرتب کیاجائے لیکن حسب روایت سرکار کاغذی گورکھ دھندے سے باہر آناہی نہیں چاہتی ہے اور جو کچھ افسران کی جانب سے فیڈ کیاجاتا ہے ،اُسی کو حتمی مان کرکامیابی کے دستار باندھے جاتے ہیں جبکہ ان اعدادوشمار کا زمینی صورتحال سے دور کاتعلق تک نہیں ہوتا ہے اور یوں عوام اور انتظامیہ کے درمیان موجود خلیج ختم نہیں ہوتی بلکہ بڑھ ہی جاتی ہے ۔جموںوکشمیر کیلئے یہ یقینی طور پر فخر کا مقام تھا کہ جموںوکشمیر ملک کا پہلا خطہ بن گیا تھاجہاں ایسی درجہ بندی کی گئی تھی جس سے بہتر حکمرانی میں مدد مل سکتی تھی اور صحت مند مقابلہ آرائی کا رجحان پیدا ہوسکتاتھا تاہم جاری کی گئی درجہ بندی رپورٹ کا عام آدمی مطالعہ کرتا ہے تو اس کے پاس سینہ پیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا تھا ۔مثال کے طور پر جموں ضلع کو مجموعی درجہ بندی میں سرفہرست رکھاگیا تھالیکن ایک سال گزرجانے کے بعد بھی جب جموں ضلع میں ہی زمینی سطح پر ان تمام دس شعبوں کی حالت دیکھی جاتی ہے تو وہ اُس کو قطعی مثالی قرارنہیں دیاجاسکتا ہے ۔اسی طرح دوسرے ،تیسرے ، چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب ڈوڈہ ،سانبہ ،پلوامہ اور سرینگر کے نام دیکھ کر بھی ہنسی ہی آتی ہے کیونکہ ان اضلاع میں عوامی خدمات کاحال ایک سال بعد بھی مسلسل بے حال ہی ہے ۔ان پانچوں اضلاع میںزراعت اور اس سے منسلک شعبوں، تجارت اور صنعت ، انسانی وسائل کی ترقی ، صحت عامہ ، پبلک انفراسٹریکچر اورعوامی خدمات ، سماجی بہبود ، مالی شمولیت ، عدلیہ اور پبلک سیفٹی ، ماحولیاتی اور عوامی مرکوز گورننس کے شعبوں اگر خامیاں گنی جائیں تو کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں اور قطعی ان پانچ اضلاع میں سبھی دس شعبوں کی کارکردگی کو کسی بھی طور مثالی کجا،اطمینان بخش بھی قرار نہیں دیاجاسکتا ہے ۔اسی طرح اگر انفرادی شعبوں میں درجہ بندی کے چارٹ یا جدول دیکھیں تو وہ بھی عام آدمی کی نظر میں خیالی پلائو ہی ہیں کیونکہ زمینی سطح پر ان اضلاع کا ان مخصوص شعبوں میں کارکردگی کا خدا ہی حافظ ہے ۔مثلاً رام بن ضلع میں سماجی بہبود شعبہ میں پہلے مقام پر رکھاگیا تھا جبکہ آج بھی رام بن ضلع میں سماجی بہبود سکیموں کی عمل آوری کا اگر زمینی سطح پر آڈٹ کیاجائے تو ایک افسوس ناک صورتحال ابھر کر سامنے آئے گی ۔ضلع میں ابھی بھی سماجی بہبود سکیموں کے تحت ہزاروں کیس زیر التوا ہیں جبکہ سماجی طور پسماندہ طبقوں کی حالت بھی بہتر ہونا باقی ہے ۔ بہر کیف فی الوقت اتنا کہاجاسکتا ہے کہ یہ ایک اچھی شروعات تھی اور اس کا تسلسل جاری رکھا جانا چاہئے تاہم اس طرح درجہ بندی کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کا یر غمال نہ بناتے ہوئے زمینی صورتحال کے جائزہ کو فوقیت دی جانی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوسکے اور اُس طرح کی درجہ بندی سے یقینی طور پر نہ صرف شفافیت آجائیگی بلکہ مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں حکمرانی کا نظام خودبخود بہتر ہوجائے گا جس سے بالآخرعوام کا ہی بھلا ہوگا۔