بچوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کریں فکرو ادراک

قرۃ العین فاروق

حوصلہ افزائی اور رہنمائی دو ایسی خصوصیات ہیں، جن کی وجہ سےعملی زندگی میں قدم رکھنے میں کام کرنا آسان اور مستقبل کاسفر طے کرناخوش گوار ہوجاتا، نسلِ نوکو سہارا ملتا اور یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ عملی زندگی میں در پیش چیلنجز کا مقابلہ کر پائے گا، جب کہ رہنمائی سے منزل کا تعین کرنے اور اس تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔
زمانۂ طالب علمی ہو یا نوکری کے مراحل ، کوئی بھی انسان اسی وقت بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے، جب اس کی پزیرائی ہو۔ یونیورسٹی ، کالج یا دفتر میں اکثر اوقات ہمارا سامنا ایسے افراد سے ہوتا ہے، جن میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے لیکن تعریف کے چند بول ان کی زندگی بدل دیتےہیں، خود اعتمادی کو بحال کرنے میں معاون ثابت ہو تے ہیں۔
انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، حوصلہ افزائی کی جائے اور اسے سراہا جائے۔ یہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح گاڑی کے لیے پیٹرول۔ حوصلہ افزائی کے لیے کہے گئے دو بول انسان کو وہ کچھ حاصل کرنے کی طاقت دیتے ہیں جس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا تک نہیں ہوتا۔
آپ نے خود کو بھی بارہا آزمایا ہوگا کہ شاباش سننے کے بعد جوش و خروش کا جو کرنٹ آپ کے اندر دوڑتا ہے وہ بہتر سے بہتر کی جستجو کی طرف گامزن کر دیتا ہے۔بہت سے تعریفی جملے سن کر، مثلاً ارے واہ تم نے تو بہت خوبصورت پینٹنگ بنائی ہے، کتنا اچھا سوٹ سیا ہے، تم تو بہت اچھی تصویریں کھینچ لیتے ہو، تم نے تو بہت اچھا کھانا بنایا ہے، واہ بھئی تم نے تو بہت اچھی کہانی لکھی ہے، وغیرہ سن کر حوصلہ ملتا ہے۔
کام کومزید بہتر کرنے کی سعی کی جاتی ہے، کام کرنے کی لگن بڑھتی ہے،خوداعتماد ی پیدا ہوتی ہے، اگر کوئی اپنے من پسند شعبوں کو پروفیشن بنالے تو اس کا مزید کام بہتر سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک ٹینلٹ چھپا ہوتا ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیسے اس چھپے ٹینلٹ کو باہر نکالتے، راستے تلاش کرتےعملی زندگی میں بروئے کار لاتے ہیں۔
کسی کو ڈاکٹر بننے کا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ ساری دنیا میں جتنے بھی بیمار لوگ ہیں ان کو شفاء دے دیں۔ کسی کو وکالت کرنے کا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ ساری دنیا کو انصاف فراہم کردے، کسی کو انجینئر بننے کا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل کرتا ہےکہ جتنی بھی خراب مشینری ہے اسے ٹھیک کردے، کسی کو سلائی کڑھائی کرنے کا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ ہر چیز رنگ برنگے دھاگوں سے بنئی ہوئی ہو، کسی کوپینٹ کرنےکا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو رنگین بنا دے، کسی کو لکھنے کا شوق ہوتا ہے تو اس کا دل کرتا ہے کہ اس کے اندر اور دوسرے لوگوں کے اندر کے احساسات کو ساری دنیا کے سامنے لے آئے وغیرہ وغیرہ۔نوجوان وہ کام زیادہ شوق سے کرتے ہیں جس کی دوسرے تعریف وتوصیف اور حوصلہ افزائی کریں۔
کسی کامیاب اور ناکام شخص کے پیچھے جہاں اس کا خود کا ہاتھ بھی ہوتا ہےوہیں اس کے ارد گرد رہنے والے بھی شامل ہوتے ہیں آج کل حوصلہ افزائی کرنے والے کم اور تنقید کرنے والے زیادہ ملتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ، لوگوں کی رائے کو کس انداز سے لیتے ہیں۔ ہر کسی کا ہر کام اچھا ہوتا ہے اورنہ برا۔بہت کم لوگ اتنے اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں کہ دوسروں کے کاموں کو سراہتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے مشہور لوگ ایسے ہیں جن سے بڑے کام صرف اس وجہ سے سر زد ہوئے کہ ان کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ جب وہ ہمت ہارنے لگتے تو ہمت افزائی کے یہ الفاظ’’ہاں تم کر سکتے ہو!‘‘ ان کو پھر سے کھڑا کردیتے تھے۔ اس لیے کبھی بھی ہمت نہ ہاریں، منفی اور مثبت دونوں آراء کو کچھ دیر اکیلے بیٹھ کے سوچیں کہ آخر کہاں کمی رہ گئی ہے اور مزیدکس طرح اچھاکیا جاسکتا ہے ۔اپنے دل و دماغ میں یہ الفاظ دہراتے رہیں کہ ’’میں یہ کر سکتا ہوں۔‘‘
تعریف یا ستائش کا مطلب دوسروں کو کچھ دینا ہے۔آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو آپ کو بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ لہٰذا تعریف کرنے میں کبھی کنجوسی نہ کیجیے، اچھا کام کرنے والے کی تعریف کریں گے تووہ آپ کا گرویدہ ہو جائے گا۔ والدین بھی اپنی اولاد کی حوصلہ افزائی کریں، اُن میں خوداعتمادی پیدا کریں اور ایسی تربیت کریں کہ وہ بگڑ نہ سکے۔ ساتھ اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں اُنہیں مشورے دیں، کام یاب ہونے ، مشکلات کا سامنا کرنے کے طریقے بتائیںاور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں۔اس سے ان کی ہمت بھی بڑھتی ہے، کامیابی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔