بچوںکو حفاظ ضرور بنائیں لیکن ہنر مندبھی بنائیں!

ہمارے ملک بھارت کی جنگ آزادی میں علمائے کرام کا رول ناقابل فراموش ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جنگ میں اسلامی مدرسوںنے بھی جو کردار نبھایا ہے ،وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے ۔ملک کی آزادی کے بعد جس طرح ملک کے یمین و یسار میں اسلامی تعلیمات عام کرنے کیلئے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ علماء و مشائخ نے دارالعلوم کھولے ،اُنہوںنے بلا شبہ مسلم آبادی کی آگہی میں بے پناہ اضافہ کیا اور مسلم آبادی کو اسلام کی بنیادی اساس سے بھی روبرو کرایا۔کون بھول سکتا ہے کہ ایک زمانہ میں دینی تعلیم چند لوگوں تک ہی محدود تھی اور محدثین و فقہاء پیدا کرنا کجا ،ہم حفاظ کرام بھی پیدا نہیں کرپارہے تھے لیکن یہ انہی دارالعلوموں کی دین ہے کہ آج ملک کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے ہرگائوں ،ہر محلہ میں ایک سے زیادہ حفاظ کرام موجود ہیں اور دین پر کسی ایک طبقہ کی اب اجارہ داری نہیں رہی ہے ۔

 

آج کل ہمارے محلوں میںجو مصباحی درسگاہ بھی چل رہے ہیں ،وہاں بھی ہمارے یہی حفاظ کرام ہمارے بچوں کو صحیح مخرج کے ساتھ قرآن و حدیث کی تعلیمات دینے کے ساتھ دینی ضوابط سے بھی روشناس کرا رہے ہیں۔مختصر لفظوں میںکہا جائے تو دارالعلوموں نے وہ کچھ کردکھا یا ،جو چند دہائی قبل تک ناممکن دکھا ئی دے رہا تھا۔آج الحمد اللہ ہمارے یہاں لوگ دین کے بنیادی تقاضوں سے واقف ہیں اور وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔بلا شبہ یہ ایسے ہی دینی مدارس کے طفیل ہی ممکن ہوپایا ہے تاہم دینی مدارس کے نام پر جگہ جگہ جس طرح دارالعلوم قائم کئے گئے ہیں،اُنہوںنے کچھ مسائل کو بھی جنم دیاہے ۔ہمارے سماج کے مخیر حضراتایسے دینی مدارس کی مالی امداد کرنے میںبخل سے کام نہیںلے رہے ہیںاور زکواۃ و صدقات کے نام پر بھی ایسے مدارس کو مسلم آبادی کی جانب سے زر کثیر فراہم کیاجارہا ہے جو ان مدرسوںکے منتظمین وہاں زیر تعلیم بچوں کے قیام و طعام اور دیگر ضروریات پر بخوبی خرچ بھی کررہے ہیں تاہم محض مالی امداد کرنے اور ان مدارس میں بچوںکو حافظ بنا نے سے ہی ہماری ذمہ داریاں ختم نہیں ہوتی ہیں۔مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایسے دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کی جو فوج ہر سال باہر نکلتی ہے ،اُنہیں پھر معاش کے مسائل اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں اور وہ محلوں و دیہات میں قائم مساجد کی انتظامیہ کمیٹیوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مساجد کی امامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ درسگاہوں میں بچوں کو دینی تعلیم دینے کے عوض ان مدارس کے فارغین کو اتنی بھی اجرت نہیں ملتی ہے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے اہل خانہ کو دو وقت کی روٹی کھلا سکیں اور اگر کوئی مولوی صاحب بہتر معائوضہ کا تقاضا کرتا ہے تو اُس کو چلتا کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ خاموش رہ کر ہی مشکلات جھیلنے پر اکتفا کرتا ہے ۔یہ تو ہمارے سماج کا ایک پہلو ہے۔دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مدارس کے ان فارغین کی بے بسی کیلئے مدارس کے منتظمین بھی ذمہ دار ہیں ۔جہاں تک دینی تعلیم دینے کا تعلق ہے تو وہ یقینی طور پر ایک کار ِ عظیم کررہے ہیںاور نوجوانوںکی ایک بڑی تعداد کو نہ صرف دین کے راستے پر لگا دیتے ہیںبلکہ ان کے ذریعے دوسر ے سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کی راہ نمائی کا سامان بھی کرتے ہیں تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہم مدارس کے بچوں کو کچھ اس طرح تیار کرتے ہیں کہ وہ فارغ ہوکر پھر اسی سماج کے محتاج بن جاتے ہیں۔ دینی تعلیم دینے سے قطعی انکار نہیں ہے بلکہ یہ ایک عظیم کام ہے ۔اگر مدارس کے منتظمین اپنے طلاب کو قر آن و حدیث کی تعلیمات دینے کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر بھی سکھاتے تو وہ باہر نکل کر کسی کے محتاج نہیںرہتے ۔دنیا مسلسل بدل رہی ہے اور اس بدلائو میں تقاضے بھی بدل رہے ہیں۔آج کل دنیاوی تعلیم میں بھی ہمارے ہی ملک دہلی کے مڈل سکولوں میں ہی بچوں کو اُن کی پسند اورمیلان کے مطابق مختلف ہنر سکھائے جارہے ہیں تاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھاسکیں۔ایسے طلباء کیلئے آگے چل کر اپنی منزل کا انتخاب آسان ہوجاتا ہے کیونکہ وہ مالی طور منحصر نہیں رہتے ہیں۔دہلی میں آج مڈل اورہائی سکولوں کے سینکڑوں فارغین آن لائن اور آف لائن پلیٹ فارموں کے ذریعے لاکھوں روپے اُس ہنر سے کما رہے ہیں جو انہوںنے سکولوں میں سیکھا تھا۔بالکل اسی طرح اگر ہم دینی مدارس میں بھی زیر تعلیم بچوں کیلئے مختلف ہنر سکھانے کا بندو بست کریں تو وہ اس سماج پر منحصر نہیںرہیں گے بلکہ وہ دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنی روزی روٹی با عزت طریقہ سے خود کمانے کے اہل بن سکتے ہیں۔ایسے ہنروں کی کوئی کمی نہیں ہے جو بہت کم خرچہ پر دینی مدارس میں بچوں کو سکھائے جاسکتے ہیں اور دینی مدارس سے فارغ ہوکر یہ بچے بہت ہی کم خرچ پر سیکھے گئے ہنر کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔مدارس کے منتظمین سے گزارش ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں ۔ایسا کرنا اس لئے بھی ناگزیر ہے کیونکہ ہمارے سماج کی ترجیحات قدرے مختلف ہیں اور ہم اپنے اُن بچوں کو مدارس بھیج دیتے ہیں جو پڑھنے لکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہوں اور عاجز آکر ہم انہیں مدارس کے منتظمین کو تھونپ دیتے ہیں کہ آپ ہی انہیں راہ راست پر لائیں جبکہ قابل اور ذہین بچوں کو ہم کانونٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں چاہے اس کیلئے ہمیں کتنا ہی پیسہ خرچ کیوں نہ کرنا پڑے ۔جب یہ صورتحال ہو تو منتظمین پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسے بچوں کا خاص خیال رکھیں اور انہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں کے عین مطابق مختلف ہنروں سے بھی آراستہ کریں تاکہ مدارس سے فارغ ہوکر انہیں پہلے اپنے گھر والوں اور اس کے بعد سماج کے طعنے دوبارہ سننے نہ پڑیں بلکہ وہ فارغ ہوکر نہ صرف مالی طور اتنا خود کفیل ہوسکیں کہ وہ دین کی خدمت کریں بلکہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھی پال سکیں۔یہ ایسے بچوں کیلئے ایک عظیم احسان ہوگا اور اس سے یقینی طور پر تبلیغی کام کو بھی تقویت ملے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔