بُرے اعمال ’اللہ تعالیٰ‘ کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے حج نام ہے تبدیلی کا ، تر بیت کا نہ کہ محض’ حاجی‘ کہلانے کا !

قیصر محمود عراقی
آج میرا مقصود آپ کے سامنے حج کی روح اور اس کے فلسفے کو پیش کر نا ہے جو آج ہماری نظر وں سے اوجھل ہو چکا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ہر سال حج اور عمرے کے لئے جا تے ہیں ، لیکن ان کی زندگیوں میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آتی اورنہ ہی ان کے طرز عمل میں کوئی انقلاب واقع ہو تا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں حج و عمرے کی اصل روح مفقود ہو چکی ہے ۔
ہر سال لوگ حج پر جانے کے لئے لاکھوں روپئے خرچ کر تے ہیں اور حج کے لئے تر بیت حاصل کر تے ہیں ۔ بلکہ شوال کے مہینے سے ہی علاقے کی مساجد میں یا پھر کسی دینی ادارے میں حج تر بیتی کیمپ کا انقعاد کیا جا تا ہے جہاں لوگوں کو حج کی تر بیت دی جا تی ہے، حج کر نے کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگر حج پر جا نے پہلے نیت کیسی ہو نی چاہئے ؟معاشرے کے حقوق کیا ہیں ؟ آمدنی کے ذرائع کیا ہیں ؟ اپنے تمام گذشتہ گناہوں سے تو بہ کیا یا نہیں ؟ قرض والوں کا قرض ادا کیا یا نہیں ، کسی کا حق غصب تو نہیں کیا یہ سب نہیں بتایا جا تا ، بس وہاں جا کر یہ کر نا ہے اور ایسے کر نا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی اکثریت حج کے معنی و مفہوم اور غرض و غایت ہی سے نا واقف ہو تی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں حاجیوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہو نے کے باوجود بہتر ثمرات نظر نہیں آتے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ حج پر جا نے سے پہلے تربیت کا اہتمام تو کر تے ہیں لیکن حج سے واپسی پر تر بیت ہو نے کے بعد بھی تر بیت سے خالی اعمال فرد اور معاشرے پر اثرات مرتب نہیں کر تے ۔ کہاں حج کے موقع پر لبیک الھم لبیک مگر واپسی پر پھر وہی عصبیت کی طرف لبیک کہنا ، ذات برادری کو اسلام سے بڑھ کر اہمیت دینا ، اسلامی روایات کے بجائے خاندانی ر وایات کو تر جیح دینا ، سود کی حامی اور اسلام مخالفوں کا ساتھ دینا اور پھر ہر سال حج کر کے اپنے نام کے ساتھ’’ الحاج‘‘ لگا کر فخر محسوس کر ناو اور پھر کہنا کہ معاشرے میں بُرائیاں بڑھ گئی ہے ۔
اعمال اور ایمان ہمارے اندر سے نکل گئے ہیں، حقیقی ایمانی روح سے خالی عبادات میں مسلمانوں کو کمزور کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل میں کمی کے بجائے مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہو رہاہے کیونکہ ہم مسلمانوں نے اسلام کو مسلکی اور فردعی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے ۔ پہلے ہم مسلکی ،پھر ذات برادری اور پھر کہیں جا کر مسلمان ہیں ، حُلیے کا نام اسلام رکھ دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری دعائیں اور عبادات قبول نہیں ہو تیں، گھر سے دو قدم پر مسجد ہے لیکن نماز سے غافل اور دولت ہاتھ آگئی تو حج کے لئے نکل پڑے ۔ پڑوسی اور رشتہ دار بھوکے ہیں لیکن جناب عمرے پر عمرے کئے جا رہے ہیں ۔ غریب لڑکیاں، شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہیں اُن کے والدین اس قابل نہیں کہ اپنی بیٹی کو دلہن بنا کر رخصت کر سکیں یہ سب دیکھتے ہو ئے بھی شہر کا امیر حج کا ارداہ کر تا ہے لیکن اُس غریب بچی کی شادی کرکے رخصت کر نا ضروری نہیں سمجھتا ۔الغرض کہنے کا حاصل یہ ہے کہ آج بھی بر صغیر سے بے شمار مسلمان حج کر نے جا تے ہیں لیکن حج کو ایک رسم سمجھ کر جا تے ہیں ، عبادت سمجھ کر نہیں ۔ میں یہ ایسا اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اکثر مولویوں کی زبانی با رہا سنا ہے کہ حج کر نے بعد بندہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جا تا ہے جیسے کوئی بچہ ابھی پیدا ہوا ہو۔ لیکن جہاں تک میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ حج پر جا نے سے پہلے بھی سود چلاتے تھے اور حج کے بعد بھی وہی سودی کا روبار جا ری ہے ۔ حج کر نے سے پہلے بھائی بہن کا حق مارا گیا اور حج سے آنے کے بعد بھی بھائی اور بہن کی جائیداد پر نظر ہے ۔ حج پر جا نے سے پہلے بھی بندہ قرض دار تھا اور حج سے آنے کے بعد بھی قرض ادا کر نے کی نیت نہیں ہے ۔ الغرض جو برائی ، جو خامی ، جو خصلتِ بد حج پر جا نے سے پہلے تھی وہی حج سے آنے کے بعد بھی ہے ،اگر کچھ بدلتا ہے تو ایک چیز اور وہ ہے نام کے آگے اور پیچھے حاجی کا دُم چھلا ۔ جی ہاں! حج نام ہے تبدیلی کا ، تر بیت کا نہ کہ حاجی کا دُم چھلاّ لگانے کا ۔
 اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو خدا را میری رہنمائی کریں۔ میں نے بر صغیر سے حج پر جا نے والوں کو دیکھا ہے اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں وہی کچھ کہہ رہا ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو مسلکی چادر اوڑھے ہو ئے وہاں بھی اپنے طرز پر حج کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ وہاں مقیم ہوٹلوں میں فرض نماز ادا کرتے ہیں لیکن مسجد حرام اور مسجد بنوی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کر نے سے گزیز کرتے ہیں،کیونکہ وہاں امام ایک دوسرے مسلک کا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ حج کا دُم جھلا لگا نا میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ میں نے کبھی بھی کسی مکتب فکر کی کتابوں میں نہیں پڑھا اور نہ ہی کسی مکتب فکر کے مفتی اور مولوی سےسُنا کہ کسی نے لکھا ہو یا کہا ہو کہ حاجی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ آپؐ نے اپنی زندگی میں ایک حج کیا ، اسی طرح کس کی زبانی نہیں سنا کہ حاجی ابو بکر ؓ ، حاجی عمرؓ، حاجی عثمانؓ ، حاجی علی ؓ ، حاجی ابو ہریرہ ؓ، حاجی انس بن مالکؓ ، حاجی عبدالرحمان بن عوفؓ، حاجی خالد بن ولیدؓ ، حاجی ابو ذر غفاریؓ، حاجی سلمان فارسیؓ، حاجی امام حسن ؓ، حاجی امام حسین ؓ ، حاجی عبد القادر جیلانیؒ ، حاجی معین الدین چشتیؒ ، حاجی اشرف علی تھانویؒ ، اور حاجی احمد رخا خانؒ، جبکہ ان تمام صحابہ کرام ، بزرگان دین اور اولیا کرام نے حج کا فریضہ انجام دیا ۔ تو پھر کیا تُک ہے کہ بر صغیر سے جا نے و الے بیشترلوگ حج سے آنے کے بعد اپنے نام کے آگے یا پیچھے حاجی کا دُم جھلا لگانا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اسی سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ حج عبادت سمجھ کر نہیں کیا جا تا ، ایک فرض سمجھ کر نہیں کیا جا تا ، ربّ کی رضا کے لئے نہیں کیا جا تا ، اللہ کی خوشنودی کے لئے نہیں کیا جا تا بلکہ دنیا کے لوگوں میں حاجی کے لقب سے مشہور ہو نے کے لئے کیا جا تا ہے ۔ ذرا سوچیں کہ ایک شخص دن بھر میں پانچ وقت کی نما زیں پڑھتا ہے تو خود کے نام کے آگے یا پیچھے نمازی نہیں لگاتا ۔ جو شخص ہفتہ میں دو روز نیاز فاتحہ کر تا ہے وہ بھی اپنے نام کے آگے یا پیچھے نیازی نہیں لگاتا پھر آخر کیا وجہ ہے کہ زندگی میں ایک بار حج کر کے آنے والا اپنے نام کے آگے یا پیچھے حاجی کا دُم چھلا لگاتا ہے ۔ عام مسلمان کی بات تو الگ ہے ۔ چلئے تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ ایک عام مسلمان اپنا رقم خرچ کر کے حج کیا، اس لئے حاجی کہلانا چاہتا ہے لیکن مولوی حضرات جو مسجد کے امیر کبیرلوگوں سے تعلقات قائم کر تے ہیں تا کہ وہ انہیں حج پر بھیج دیں۔ اور ایسا کئی جگہ دیکھا بھی گیا ہے کہ زیادہ تر مولوی حضرات اس اُمید پر پڑے رہتے ہیں کہ کوئی امیر ہمیں بھی حج بدل کے لئے یاپھر حج کے لے بھیج دے اور جب ایسا کوئی مرغاانہیں مل جا تا ہے تو یہ حج پر نکل پڑتے ہیں ،کبھی یہ جا ننے کی کوشش نہیں کر تے حج پر بھیجنے ولا نماز پڑھتا ہے کہ نہیں ، آمدنی اُس کی حلال کی ہے یا نہیں ، اس نے کسی کا حق تو نہیں مارا ہے ،کہیں وہ زانی اور شرابی تو نہیں۔بس اُس نے بھیجا اور یہ نکل پڑے اور حج سے آنے کے بعد عام لوگ حاجی کا دُم چھلا لگاتے ہیںا ور یہ مولوی حضرات ’الحاج‘ کا دُم چھلا لگاتے ہیں ۔
بہر حال حج ایک عبادت ہے جو کہ صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ لہٰذا حج پر جا نے سے پہلے صرف حج کیسے کی جا تی ہے، اس کی تر بیت لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اپنے اندر سے ان تمام مذکورہ باتوں کو بھی نکال پھینکنا ہو گا، تبھی اللہ کے بارگاہ میں آپ کی حج قبول ہو گی ، ورنہ حاجی صاحب تو آپ کہلائیں گے دنیا میں، لیکن دین میں کوئی اجر نہیں ملے گا ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خالص نیت سے اور نیک دل سے حج کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔
رابطہ۔ 6291697668