بوڑھا خادم افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

چالیس برس پہلے جب وہ مسابقتی امتحان کے ذریعے ایک اُونچی پوسٹ پہ تعینات ہوگیا تھا تو تب اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی تھی۔اُس زمانے میں وہ نہایت حسین ،ہوشیار اور کافی حد تک عیّار بھی تھا۔اُس کا پورا نام رنگین احمد تھا لیکن والدین اور خاندان کے لوگ اُسے رنگین کاکا کہا کرتے تھے۔تین بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹا تھا۔اُس کی عیّارانہ چالیں کالج کی زندگی سے ہی شروع ہوگئی تھیں ۔گریجویشن کے دوران جب اُس کے کالج میں انگریزی پڑھانے والی میڈم ڈاکٹر پریم لتا نئی نئی شادی کرکے کالج آئی تھی تو اُس کا دُلہن رُوپ رنگین کاکا کے دل ودماغ میں بُری طرح رچ بس گیا تھا۔بی اے سال دوم میں اُس کے ساتھ بہت سی لڑکیاں اور لڑکے پڑھتے تھے۔کلاس رُوم طلبہ وطالبات سے کھچا کھچ بھرا رہتا تھا۔ایک روز جونہی میڈم ڈاکٹر پریم لتا کلاس میں آکر لیکچر دیتے ہوئے تختہ سیاہ پر کوئی جملہ لکھنے لگی تھی تو رنگین کاکا نے سفید چاک کا چھوٹا سا ٹکڑا پیچھے سے اُس کے اُوپر پھینکا تھااور شریفانہ ادا کے ساتھ خود تختہ سیاہ کی طرف یوں دیکھنے لگا تھا کہ جیسے وہ کسی شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔میڈم پریم لتا غصّے سے لال پیلی ہوگئی تھی ۔وہ فوراً پیچھے مُڑ کر پوری کلاس پہ نظر یں دوڑاتی ہوئی کہنے لگی تھی
’’یہ تم میں کون بد تمیزہے جو اس طرح کی حرکت کررہا ہے ؟تعلیم آدمی کو انسان بناتی ہے لیکن آپ میں سے جس نے بھی یہ حرکت کی ہے اُسے میری یہ بات عمر بھر یاد رکھنی چاہیے کہ اُستاد کا مرتبہ والدین سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے ‘‘
میڈم پریم لتا چاہتی تو اپنے کالج کے پرنسپل سے اس بدتمیز ی سے تعلق رکھنے والے واقعے کا ذکر زبانی یا تحریری طور پر کرسکتی تھی لیکن اُس نے یہ مناسب نہیں سمجھا تھا کیونکہ طلبہ وطالبات میں سے کس نے یہ شیطانی حرکت کی تھی اُسے یہ معلوم نہیں ہوپایا تھا۔کسی لڑکے یا لڑکی میں بھی یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ رنگین کاکا کی طرف اُنگلی اُٹھا کر یہ کہتی کہ اُس نے میڈم پریم لتا پر چاک کا ٹکڑا پھینکا ہے ۔رنگین کاکا میں غنڈہ گردی اور لڑائی جھگڑے کے جراثیم موجود تھے۔کچھ سنجیدہ لڑکوں اور لڑکیوں نے کلاس رُوم سے باہر نکلنے کے بعد آپس میں اس ضرب المثل کو ایک دو بار دہرایا تھا کہ’ ’ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے‘‘اُنہیں اس بات کا بھی شدید احساس ہوا تھا کہ آج ایک طالب علم کی نازیبا حرکت کی وجہ سے اُستاد وشاگرد کا رشتہ داغدار ہواہے ۔دراصل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیادہ تر لڑکیاں اور لڑکے موج مستی کے لئے داخل ہوتے ہیں ۔رنگین کاکا جب تک کالج میں زیر تعلیم رہا تھا تب تک اُس نے اپنی دادا گری اور رعب داب سے سب پر حکومت کی تھی ۔بی اے کرنے کے بعد اُس کی قسمت کا ستارہ کچھ اس طرح سے چمکاکہ وہ مسابقتی امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اُس کے خاندان اور بستی کے لوگ اس بات پر حیران رہ گئے تھے کہ وہ کس طرح مسابقتی امتحان میں کامیاب ہوا ہے۔اُس کے والدین، بھائی، بہنیں،رشتے دار یہاں تک کہ بستی کے لوگوں نے خوشی کے جوش میں اُس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے تھے اور اُس کا منہ میٹھا کرایا تھا۔کوئی دو ماہ کے بعد اُس نے ایک اُونچی پوسٹ پہ جوائن کیا تھا۔اُس نے بیک وقت انگریزی فیشن کے تقریباً بیس سُوٹ الگ الگ رنگ کے خریدے تھے ۔ہر سُوٹ کے ساتھ الگ رنگ کی ٹائی تھی ۔جب رنگین کاکا نیا سُوٹ بوٹ پہن کے سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دفتر چلاجاتا تھا تو غرور وتکبر کی وجہ سے اُس کی گردن میں اکٹر اور باتوں سے افسری ٹھاٹ باٹ ظاہر ہونے لگتی ۔دفتر پہنچنے کے بعد چپراسی اور بابُو قسم کے لوگ ہوشیار اور چوکنّے ہوجاتے۔وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر اُس کے حکم پر سر تسلیم خم کرنے لگتے ۔ایک سال کے بعد اُس کے والدین نے اُس کی شادی حیات آفریں نام کی ایک امیر اور تعلیم یافتہ لڑکی کے ساتھ کردی تھی۔اُس کی زندگی اب اور زیادہ رنگین ہوگئی تھی ۔اب اُس نے افسری میں آمدنی کے تمام طریقے سیکھنے شروع کیے ۔سگریٹ نوشی کی لت تو اُسے کالج کے زمانے ہی میں پڑگئی تھی لیکن اب اُس کے کچھ دوستوں نے اُسے اُم الخبائث یعنی مے نوشی کے فائدے اور انداز سکھانے شروع کردیے تھے ۔شادی کے دوسال بعد ہی اُس نے ایک دن اپنے والدین اوربھائیوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے شہر کے کنارے پر ایک بہت بڑا حویلی نما مکان تعمیر کروادیا تھا۔چار چار سال کے وقفے بعد اُس کی بیوی حیات آفریں نے تین بیٹوں کو جنم دیا تھا۔بڑے بیٹے کانام انور ساحل ،دوسرے کانام منور فاضل اور تیسرے کا نام مدثر عادل تھا۔تینوں بیٹوں کو اُس نے شہر کے ایک بڑے مشنری اسکول میں داخل کروایا تھا۔
رنگین کاکا زبان کا میٹھا لیکن دل کا کھوٹا تھا۔اُس کے دفتری کشادہ ٹیبل پر عوام کی بہت سی جائز فائلیں مختلف مطالبات کی منظوری کے لئے آتی تھیں لیکن وہ اُن پہ کوئی نہ کوئی اعتراض لکھ کے اپنے کلرکوں کے حوالے کردیتا۔لوگ بار بار اُس کے دفتر کے چکّر لگاتے،پریشان ہوتے ۔وہ اُن کی مجبوری اور پریشانی کا کوئی بھی خیال نہیں کرتا تھا۔وہ خود سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر ہر تیسرے دن مختلف علاقوں اور دفتروں کا معائنہ کرنے نکل جاتا تھا ۔ایک روز وہ اپنے دفتر میں اُونچی نرم کرسی پہ بیٹھا سیگریٹ کے کش لے رہا تھا کہ اسی دوران اُس کا ہمدم دیرینہ بھاگ سنگھ اُس سے ملنے آیا ۔بھاگ سنگھ اور رنگین کاکا کسی زمانے میں کالج میں ہم جماعت رہ چکے تھے ۔بھاگ سنگھ کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اُس کا دوست رنگین کاکا لوگوں کے جائز کام نہیں کرتا ہے ۔وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے خواہ مخواہ اُنھیں پریشان کرکے نقصان پہنچاتا ہے۔اسی لئے وہ آج رنگین کاکا سے ملنے آیا تھاتاکہ اُسے یہ احساس دلائے کہ افسری ٹھاٹ باٹ اور خوب صورت جسمانی رنگ وروپ ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتا ہے ۔یہ سب چیزیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر آدمی سے چھن جاتی ہیں ۔بھاگ سنگھ نے جونہی رنگین کاکا کے ہال نُما کمرے میں قدم رکھا تو رنگین کاکا نے اُسے دیکھتے ہی فوراً آدھی سے زیادہ سگریٹ کا ٹکڑا ہاتھ سے مسلتے ہوئے ایسٹرے میں رکھ دیا۔بھاگ سنگھ کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا
’’ارے…بھاگ سنگھ!…یار! کیا حال ہے؟تُجھ کو دیکھا تو زمانہ یاد آیا۔یار! کب کے بچھڑے کہاں آکے ملے!‘‘دونوں بڑے پُر تپاک انداز میں ایک دوسرے سے گلے ملے ۔بھاگ سنگھ نے کہا
’’یار…! تیرے ساتھ ملاقات کرنے کو میرا دل بے قرار رہا ہے ۔کئی بار پروگرام بنایا کہ تیرے ساتھ ملاقات کروں لیکن سرکاری اور نجی مسٔائل سے فراغت نہیں مل پائی۔ یار! مجھے تیرے ساتھ کالج میں گزارے دن یاد آرہے ہیں ۔وہ بے فکری اور مستانگی کے دن اب ہماری زندگی میں نہیں آسکتے ۔ہاں مجھے یاد آرہا ہے کسی شاعر کی غزل کا یہ اشعار کہ
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصّورِ جاناں کئے ہوئے
رنگین کاکا نے شعر سُنا تو کہنے لگا
’’ارے واہ!کیا بات ہے ‘‘پھر اُس نے ٹیبل بیل بجائی ۔چپراسی فوراً اُس کے سامنے حاضر ہوا ۔اُس نے اُسے ڈرائی فروٹ کی ٹرے ٹیبل پہ رکھنے اور چائے
پلانے کو کہا ۔چپراسی نے چند لمحوں میں یہ دونوں کام انجام دیے ۔چائے پیتے ہوئے رنگین کاکا نے بھاگ سنگھ سے پوچھا
’’یار بھاگ سنگھ! اگر میرے لائق کوئی کام ہو توبتادینا ‘‘
بھاگ سنگھ نے موقع غنیمت جانا ،اُس نے کہا
’’یار! میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ بھگوان نے تجھے اتنی اُونچی پوسٹ پہ لوگوں کے جائز کام کرنے کے لئے بٹھایا ہے ۔اس لئے کسی کا دل نہیں دُکھانا بلکہ ہر کسی کا جائز کام کرنے میں پہل کرنااور اگر اتنے بڑے عہدے پر فائز رہنے کے بعد بھی تُو کسی کے کام نہیں آئے گا تو اتنی اُونچی کرسی پر بیٹھنے کا کیا فائدہ ،تُو ایک قابل آدمی ہے لیکن بہت سے نااہل لوگ جب کسی عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں تو وہ شک کی بیماری میں اس قدر مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہر جائز کام کو ناجائز قراردینے لگتے ہیں ۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ساری زندگی اس آفیسری کی کرسی پر بیٹھے رہیں گے ۔یہاں بھی مجھے کرسی کے حوالے سے کسی جدید شاعر کا یہ شعر یاد آرہا ہے کہ
کرسی ہے تمہاری کوئی جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کرنہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے
بھاگ سنگھ نے شعر سُنانے کے بعد دل ہی دل میں کہا یہ شعر تو رنگین کاکا پہ ہی صادق آتا ہے کہ جو لوگوں کے جائز کام کو ناجائز قراردیتا ہے ۔وہ یہ سوچتے ہوئے کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا ۔اُس نے رنگین کاکا کی طرف دایاں ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا
’’اچھا میرے دوست!اب مجھے رُخصت دے میں چلنا چاہتا ہوں‘‘
رنگین کاکا نے کہا
’’بھاگ سنگھ … اتنی کیا جلدی ہے ؟کافی وقت کے بعد ملاقات ہورہی ہے‘‘
’’نہیں میرے دوست! میں بعد میں پھر کبھی آؤں گا‘‘یہ کہتے ہوئے وہ رنگین کاکا کے دفترسے باہر نکل آیا۔
رنگین کاکا اپنے بڑے بیٹے انور ساحل کو ڈاکٹربنانا چاہتا تھا۔دوسرے بیٹے منور فاضل کو انجینئر اور تیسرے بیٹے مدثر عادل کو آئی اے ایس آفیسر لیکن اُس کے یہ ارمان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے نہیں ہوپائے ۔بڑے بیٹے انور ساحل نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑدی اور آوارہ لڑکوں کے ساتھ ادھراُدھر گھومنے لگا۔کوئی بائیس سال کی عمر میں اُس نے ایک خاکروب کی بیٹی کو اغوا کرکے اُس کے ساتھ کورٹ میریج کرلی ۔دوسرے بیٹے منور فاضل نے بارہویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد چائے کی دُکان کھولی ۔ اُس نے بھی اپنی مرضی کی ایک لڑکی کے ساتھ شادی کرلی۔ ہاںتیسرے بیٹے مدثر عادل نے بی اے کرنے کے بعد فوج کی نوکری جوائن کرلی ۔وہ ایک اچھی پوسٹ پہ چلا گیا۔کوئی تین سال کے بعد رنگین کاکا نے اُس کی شادی ایک پوسٹ گریجویٹ لڑکی نرگس سے کرادی ۔نرگس اسکول میں ٹیچرتھی ۔
رنگین کا کاوقت کے دریا میں بہتے بہتے اب تھک ہار چکا تھا۔حرص وہوس کے گھوڑے پہ سوار اُسے اب یہ سمجھ آگئی تھی کہ اس دُنیا میں ہر کوئی چڑھتے سورج کو سلام کرتا ہے ۔وہ جس دن ملازمت سے سبکدوش ہواتھا تو اُسے اُس دن یوں محسوس ہواتھا کہ جیسے وقت نے اُس سے عمر بھر کا انتقام لیا ہو ۔اُس کی جسمانی اور ذہنی کھڑکیاں یکے بعد دیگرے بند ہورہی تھیں ۔اُس کے اپنے بھی اُسے پرائے معلوم ہورہے تھے ۔اُس کے دفتر کے تمام اسٹاف ممبران ،اُس کے دوست واحباب بظاہر اُس سے گلے مل رہے تھے لیکن دل ہی دل میں اُسے بُرا آدمی کہہ رہے تھے ۔ایک ایسا بُرا آدمی جس نے رشوت خوری،ظلم وزیادتی
اور عیاشی کی تمام حدیں پار کردی تھیں ۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ گھر میں اپنے آپ کو یوں محسوس کررہا تھا کہ جیسے تنہائی اور جسمانی ضعف اُسے ایک ناگن کی طرح ڈنس رہی ہو۔اُس کی رفیقۂ حیات،حیات آفریں بھی بڑھاپے کی ڈراونی وادی میں داخل ہوچکی تھی ۔اُس کی کمر میں ہر وقت درد رہتا تھا۔اِدھر رنگین کاکا اپنا جسمانی رنگ وروپ کھو چکا تھا۔اُس کی سب سے چھوٹی بہو نرگس ڈیوٹی پہ جانے سے پہلے گھر کاکام ،کام والی سے کروالیتی تھی،اُس کے بعد وہ اپنی گاڑی ڈرائیو کرتی ہوئی ڈیوٹی پہ چلی جاتی تھی ۔لیکن جب کچھ دن سے کام والی نہ جانے کہاں چلی گئی تو رنگین کاکا کو مجبوراً گھر کے بہت سے کام خود ہی کرنے پڑے۔ایک روز اُس کی بہو نرگس نے اسکول سے اُسے فون پہ کہا
’’ابّا جی!میں نے واشنگ مشین میں کپڑے ڈال دیئے ہیں اگر وہ دُھل گئے ہوں تو نکال کر باہر دھوپ میں رکھ دیجیے ۔گیس سلینڈر بھی بھر وادیجیے ۔ہاں یاد آیا دوبجے بچّوں کو اسکول سے لے آیئے گا ۔آج اُن کی گاڑی خراب ہوئی ہے ۔وہ انہیں گھر نہیں پہنچاپائے گی‘‘
رنگین کاکا نے ڈوبتی اُبھرتی آواز میں بہو کو تسّلی دیتے ہوئے کہا
’’ہاں…بیٹی! …میں یہ سبھی کام خود کرلوں گا۔فکر نہ کرنا‘‘یہ کہنے کے بعد رنگین کاکا کو اپنی گذشتہ زندگی کا ایک ایک لمحہ یاد آنے لگا۔تب اُسے یوں محسوس ہوا کہ اُس کی حیثیت ایک خادم کی ہے۔کبھی وہ یہ سوچ کے رہ جاتا کہ یہ سب اُس کے گناہوں کی سزا تو نہیں ہے!
���
سابق صدر شعبہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532