بعدِ رمضان زندگی کیسے گزاریں؟ فکرو فہم

سائرہ‌الفت، کوکرناگ

تیری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
اللہ تبارک و تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہمارے دین اسلام میں ماہ ِرمضان کے ذریعے ہمیں وہ موقع فراہم کیا کہ ہم اپنے ایمان کو بلندی پر لا سکتے ہیںاور اپنی تمام خطاؤں کی بخشش طلب کرسکتے ہیں اور پرہیزگاری کا اہتمام کر سکتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہؐ نے فرمایا :’’ کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں اپنے روزہ سے صرف پیاس حاصل ہوتی ہے اور کتنے ہی قیام کرنے والے ہیں، جنہیں اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔‘‘
اب ہر کسی مسلمان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ اس کا روزہ ضائع نہ ہو،اور خاص کر اپنا جائزہ لے کہ اس ماہ رمضان سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوا ہے کیا ہم تقویٰ گزار پرہیزگار بن گئے یا ہمیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔
کچھ لوگ صرف رمضان میں عبادت کرتے ہیں اور باقی گیارہ مہینے گنہگاری میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ہم اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس انسان کو تقویٰ حاصل ہوا ہے بلکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بُت پرست کی ہے،جو بُت خانوں میں جاکر بُتوں کی پوجا کرتا ہے اور پھر دن بھر اپنی مرضی سے زندگی گزارتا ہے ۔
رمضان کا مقدس مہینہ ایک مسلمان کے لیے ایک ٹریننگ کورس ہے کہ باقی کے گیارہ مہینے آپ نے کس طرح زندگی گزارنی ہے۔اگر ماہ رمضان کے رخصت ہوجانے کے بعد اگر ہم پھر بُرائیوں اورخرابیوں،ذلت اور رُسوائیوں میںہی اپنی زندگی گزاریں تو پھر اس ماہ رمضان میں عبادات اور نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ ماہ رمضان تقویٰ اور پرہیزگاری کے لیے ہی رکھا گیا ہے۔
ماہ رمضان کے بعد ہی ہمیں دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر لوگ پھر سے اپنی پرانی بُری اور غلط روایات کے تحت گزارنا شروع کردیتے ہیں،بُرائیوں اور خرابیوںمیں مشغول ہوجاتے ہیں، گاڑیوں میں زور زور سے گانا چلاتے ہیں،ہماری مائیں،بہنیں اور بیٹیاں پھر سے سرِ راہ بے پردہ گھومتی ہیں،ہمارے جوان پھر سے کھلے عام نشہ کرتے ہیں ،مسجدوں میں پھر سے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ لیکن کاش! ہم یہ سمجھ پاتے کہ اس ماہ رمضان کا مقصد ہماری زندگی کے لیے کیا تھا اور ہم کس ذلت و رسوائی کی زندگی کوپھر سے گلے لگاتے ہیں۔اب بات کرتے ہیں کہ ہم باقی گیارہ مہینے کس طرح عبادت کرے ۔
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ماہ رمضان کے مقدس مہینےمیں ہماری عادات میں تبدیلی آجاتی ہے۔مثلاًصبح سحری میں اٹھنے کی ،جس کے باوصف ہم صبح صادق کے وقت تہجد پڑھ لیا کریں، اس کے بعد فجر کی نماز ادا کرے اور تلاوت کرے،روزانہ دو تین آیتیں با مطلب اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں اور ان کو حفظ کرنے کی کوشش کریں،پھر ذکرواذکار کریں، اس کے بعد آپ اپنا روز مرہ کا کام انجام دیں ۔نمازِظہر وقت پر پڑھیں اور آپ کے پاس کچھ اور وقت ہے تو کچھ کتابیں پڑھ لیا کریں،فون کا زیادہ استعمال نہ کریں۔ فون کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کریں،پھر جو بھی آپ کی زندگی کا معمول ہوگا، اُسے انجام دیں اور جس طرح آپ رمضان کے دنوں میں وقت کے پابند تھے،بالکل اُسی طرح سال کے باقی گیارہ مہینوں میںبھی ایک ٹائم ٹیبل سیٹ کریں۔اسی طرح آپ عصر اور مغرب کی نماز ادا کریں اور پھر مغرب کے بعد کچھ احادیث کا بھی مطالعہ کریں اور ساتھ ہی ساتھ ان کو یاد کریں اور عشاء کے بعد تلاوت کر کے سو جایا کریں تاکہ صبح آپ آرام سے جاگ سکیں اور آپ کی نیند مکمل ہو جائے ۔اگر ہم سب اپنے آپ ماہِ رمضان کی طرحان کاموں میں مشغول رکھیںتو نہ صرف بُرائیوں ،خرابیوں ،فحاشی ،جرائم ،اور منشیات کے استعمال کا کا از خود خاتمہ ہوگا بلکہ ہم سب تقویٰ گزار بن جائیں گے اور اللہ کی رضا مندی ہم سبھوں ساتھ شامل ہو جائے گی اور دنیا و آخرت میں فائدہ حاصل کرپائیں گے۔
<[email protected]>