بجلی کی صد فیصد فراہمی:ہدف کوسوں دور !

گزشتہ دنوںحکومتی عہدیداروں کی جانب سے اعلان کیاگیا کہ جموں و کشمیر کو وقت سے پہلے 100 فیصدبجلی کی فراہمی کا ہدف حاصل کرنے پر حکومت ہند کی طرف سے 100 کروڑ روپے کا انعام ملا ہے۔ گوکہ یہ اعلان باعث اطمینان ہے اور اگر واقعی صدفیصد بجلی کی فراہمی حاصل کیاگیا ہے تو اس کا خیر مقدم کیاجاناچاہئے تاہم زمینی حقائق بالکل برعکس ہیں۔آج بھی کشمیر اور جموں صوبہ کے دورافتادہ علاقوں میں ایسے دیہات کی کمی نہیں ہے جہاں بجلی ابھی تک نہیں پہنچی ہے اور جہاں لوگ آج بھی چوب چراغ جلاکر اپنی راتوں کو روشن کرتے ہیں یاپھر سولر لائٹس کا سہارالیکر گزاراکررہے ہیں۔یہ تو بجلی سپلائی کی مایوس کن صورتحال کا ایک پہلو ہے ۔اب جہاں بجلی فراہم کی جارہی ہے ،وہ بھی معیاری نہیں ہے اور گائوں دیہات میں تو بجلی کے سپلائی نظام کا حال بدستور بے حال ہی ہے۔آئے روز اخبارات میں خبریں تصاویر کے شائع ہورہی ہیں جن میں واضح طور پر دیکھاجاسکتا ہے کہ ترسیلی لائنیں سرسبز درختوں اور لکڑی کے ٹکڑوںکے ساتھ آویزاں ہوتی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کئی علاقوں میں آج بھی ترسیلی لائنوں کے نام پر خاردار تاریں لگی ہوئی ہیں ۔جب ترسیلی نظام کا یہ حال ہو تو تو صدفیصد بجلی کی فراہمی کا دعویٰ کرنا بھونڈا مذاق ہی لگتا ہے ۔اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً بجلی کی سپلائی کا خراب ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے جس پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مختلف اوقات میں بجلی کی قلت کے باعث عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کشمیر میں سخت سردی کے دوران ہو یا جموں میں گرمی کی شدید گرمی کے دوران، بجلی کی مقررہ اور غیراعلانیہ کٹوتیوں نے صارفین کی زندگی اجیرن کردی ہے۔جموں و کشمیر نے چند ماہ قبل (رمضان کے دوران) بجلی کا غیر متوقع بحران دیکھا اور جس کے لئے پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

 

گرمیوں میں بجلی کا منظرنامہ کچھ حد تک بہتر ہوتا ہے لیکن سردیوں کے شروع ہونے کے بعد مزید خراب ہو جاتا ہے۔آج کل بھی بجلی کا آنااور جانا لگا رہتا ہے ۔جموں میں تو سپلائی صورتحال کافی خستہ ہے ۔حکام اپنا پہلو بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بجلی کی کم پیداوار اور شام کے اوقات میں صارفین کی طرف سے بجلی چوری کی وجہ سے سپلائی کم ہو جاتی ہے۔زیادہ بجلی پیدا کرنا محکمہ بجلی کا کام ہے اور بجلی چوری میں ملوث نہ ہونا صارفین کی ذمہ داری ہے۔اگر ان میں سے کچھ بجلی چوری بھی کرتے ہیں تو ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنا سرکاری مشینری کا فرض ہے۔ بدقسمتی سے بہت زیادہ صلاحیت کے باوجود ماضی میں زیادہ بجلی پیدا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔جموں و کشمیر میں پن بجلی کا تخمینہ 20,000 میگاواٹ ہے لیکن اس کے باوجود بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لئے جموںوکشمیر باہر سے بجلی درآمد کرتا رہتا ہے۔کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ جموں و کشمیر میں کتنی بجلی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ یہاں پیدا ہونے والی بجلی سے کتنی بجلی جموںوکشمیر کو سپلائی کی جاتی ہے۔سرکاری عہدیدارکہتے ہیں کہ یہ عملی طور، تکنیکی طور یا قانونی طور پر جائز نہیں ہے کہ یہاںاین ایچ پی سی پروجیکٹوں سے پیدا ہونے والی پوری بجلی جموںوکشمیر کو دی جائے۔جہاں تک این ایچ پی سی پروجیکٹوں سے پیدا ہونے والی بجلی کا تعلق ہے، وہی اصول یہاں لاگو ہوتے ہیں اور دوسری ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں بھی وہی اصول لاگو ہوتے ہیں۔

 

حکام کا کہنا تھا کہ بجلی کی قلت کے معاملے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ان کے مطابق سپلائی اگلے تین برسوں میں 3500 میگاواٹ سے دوگنی اور اگلے سات برسوں میں تین گنا ہو جائے گی۔اس سلسلے میں آٹھ نئے ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے در دست گیا ہے۔ ان میں سے پانچ این ایچ پی سی اور تین دیگر جموں و کشمیر حکومت کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے ذریعے تیار کیے جا رہے ہیں۔اگر یہ پروجیکٹ بروقت تیار ہوجاتے ہیں تو یقینی طور پر بجلی سپلائی کا منظر نامہ بہتر ہوسکتا ہے تاہم یہ حتمی علاج نہیںہے کیونکہ ان پروجیکٹوں سے بھی ملنے والی بجلی جموںوکشمیر کو مکمل طور نہیں ملے گی اور اس کے بعد ہمیں شمالی گرڈ سے بجلی خریدنا پڑے گی۔بجلی بحران کا واحد حل یہ ہے کہ ہم بجلی کے ترسیلی و تقسیم کاری نظام کو بہتر بنائیں اور تقسیم و ترسیل کے دورا ن نقصانات کے تمام امکانات ختم کرکے صارفین کو پہلے معیاری بجلی فراہم کریں اور پھر اس کے بعد ان سے ماہانہ بنیادوںپر باقاعدہ بجلی فیس بھی وصول کریں کیونکہ اگر صارف بجلی استعمال کرتا ہے تو اس کا کرایہ ادا کرنا اُس کا فرض ہے۔ اس سے سرکار کیلئے بجلی خریدنا آسان ہوجائے گی کیونکہ پیسے کی قلت کا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا اور نتیجہ کے طور بجلی خسارہ خود بخود یاتو ختم ہوجائے گا یا پھر کافی حد تک کم ہوجائے گا ۔