بجلی فیلڈ عملہ کی بے سروسامانی کب ختم ہوگی؟

گزشتہ کئی برسوں سے یہ اخبارمسلسل محکمہ بجلی میں فیلڈ سٹاف کی حالت زار کو اجاگر کر رہا ہے اور ارباب بست و کشاد کی توجہ محکمہ سے منسلک فیلڈ عملہ کے مشکلات کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کچھ سننے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو زمینی سطح پر محکمہ کی حالت بدل چکی ہوتی اور فیلڈ عملہ کی بے سرو سامانی کا عالم ختم ہوچکا ہوتا تاہم آج بھی یہ حالت ہے کہ محکمہ سے منسلک کیجول و ڈیلی ویجر مسلسل ترسیلی لائنوں کی مرمت کے دوران بے سرو سامانی کی حالت میں بجلی لائنوں اور ترسیلی کھمبوں پر ہی بجلی کرنٹ لگنے سے لٹک کر لقمہ اجل بن رہے ہیں۔گزشتہ دنوں صوبہ جموں کے راجوری اور کٹھوعہ اضلاع میں ترسیلی لائنوں کی مرمت کے دوران محکمہ بجلی کے دوملازمین جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔اس سانحات کی جو تصویریں سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوئیں ،وہ رونگٹے کھڑاکردینے والی تھیں اور اُن سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ترسیلی لائنوں کی مرمت کیلئے بجلی کے کھمبوں پر چڑھنے والا محکمہ بجلی کا عملہ کس حد تک بے سرو سامانی کی حالت میں ہوتا ہے۔ان واقعات سے پہلے ہمارے پاس ایسے واقعات کی بہت ساری مثالیں ہیں جہاںفیلڈ سٹاف بری طرح متاثر ہوا۔ ہمارے پاس اموات اور جسمانی اعضاء کاٹنے کے بہت سے معاملات ہیں۔ اگرچہ حادثات زندگی کا حصہ ہیں، اور کوئی بھی حادثات کے امکان کو مکمل طور پر ختم کرنے کی توقع نہیں کر سکتالیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان اندوہناک واقعات سے سیکھتے ہیں؟ ان معاملات میں جہاں محکمہ بجلی کے فیلڈ عملے نے اعضاء کھوئے ، یہاں تک کہ جانیں بھی ضائع ہوئیں،کیا محکمہ نے حادثات کی وجہ جاننے کے بارے میں کوئی معقول انکوائری شروع کی؟۔ اور پھر اس طرح کے حادثات کے امکان کو کم سے کم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے؟۔جس طرح گھریلو کنکشن لائنیں بجلی کے کھمبوں سے جڑی ہوتی ہیں ، زمین سے اسے دیکھتے ہی خوف طاری ہوتا ہے کیونکہ یہ ترسیلی لائنیں خوفناک حد تک بے ترتیب ہوتی ہیں۔جب فیلڈ سٹاف سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان برقی کھمبوں پر کچھ کنکشن ٹھیک کریں تو یہ انہیں براہ راست موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہوتاہے۔صرف اس وجہ سے کہ ہم اس مشق کے عادی ہو چکے ہیں اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ در حقیقت ان لائن مینوں کے لیے بجلی کے کھمبوں پر چڑھنا اور کنکشن ٹھیک کرنا بہت خطرناک ہے۔ اکثر اوقات یہ لوگ موت کے بہت قریب ہوکر ایسی ترسیلی لائنوں کی مرمت کرتے ہیں جن میں بجلی کرنٹ کی روانی ہوتی ہے اور اگر کبھی کبھار بجلی کاٹ بھی دی جاتی ہے تو زمینی سطح پر متعلقہ لائن مین سے تصدیق کئے بغیر ہی رسیونگ سٹیشن سے بجلی چھوڑ دی جاتی ہے اور بیچارا لائن مین ترسیلی لائنوں پر ہی لٹک جاتا ہے اور نتیجہ کے طور پر اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔جو سوال سامنے آتا ہے وہ بہت سیدھا ہوتا ہے۔ کیا محکمہ ترسیلی لائنوں کی مرمت کے دوران ضروری ایس او پیز پر عمل کرتا ہے؟ کیاہمارے لائن مین ایسا کام کرنے کیلئے مناسب ساز وسامان سے لیس ہیں؟ کیا ہمارے پاس ان لائن مینوں کے لیے حفاظتی پوشاک ہے؟ جیسا کہ ہم سڑکوں اور گلی کوچوںمیں دیکھتے ہیں ، ان غریب لائن مینوں کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات یقینی نہیں بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مہذب حصے میں یہ قتل کے مترادف ہوگا۔لیکن یہاں ہم نے یہ احساس مکمل طور پر کھو دیا ہے اور ہم اس کو سرسری لے رہے ہیں اور ہمارے لئے اس طرح کے واقعات میں انسانی جانوںکا زیاں شاید کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ اب اگلا سوال۔ جو لوگ ان حادثات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں ، ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ ان میں سے بہت سے معاملات میں ہمارے پاس کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین ، یا سادہ یومیہ اجرت والے مزدور ہوتے ہیں جو ایسے حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ اگر وہ شدید زخمی ہو جائیں تو آخر کار ان سب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو ان کے اہل خانہ کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے بڑا جر م ہو ہی نہیں سکتا ہے اور مہذب سماج میں اس کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔