ایک عظیم داعی اسلام ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ولی اللہ

~میر امتیاز آفریں
تاریخ گواہ ہے کہ دعوت و اصلاح کے حوالے سے صُوفیاۓ کرام نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئے۔ ان پاکبازوں نے پہلے اپنے اندر کے جہان کو تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے فتح کیا اور اس کے بعد باہر کی دنیا کو بھی اس طرح روحانی طور پر مسخّر کرلیا کہ آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی وہ لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔ وہ اپنے عقیدت مندوں کے دِلوں میں پہلے بھی آباد تھے اور آج بھی آباد ہیں۔ بقول سعدیؒ:
بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مَجو
در سینہ ہائے مردمِ عارف مزارِ ما
یعنی وفات کے بعد میری قبر زمین میں تلاش مت کرنا، کہ عارف لوگوں کہ سینوں میں میرا مزار ہے۔
جب وہ زندہ تھے تو بادشاہانِ عالَم اِن سے خوف کھاتے تھے لیکن یہ خود صرف خُدا سے ڈرتے تھے اور اِسی میں اُن کی عظمت و بزرگی اور بُلندی کا راز مضمر ہے۔ یہ حکمرانوں سے بے نیاز رہے اور حکمران ان کے نیاز مند رہے۔ اُنہوں نے رُشد و ہدایت اور تبلیغ و اشاعتِ دین کے لئے درس و تدریس کے سِلسلے کو پروان چڑھایا،آگے بڑھایا اور اپنی زِندگیاں اس عظیم مقصد کے لئے وقف کر دیں۔
جب ہم ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہاں بھی صوفیاء کرام کی کاوشوں کی بدولت ہی اسلام کو فروغ ملا اور اس سلسلے میں عظیم مبلغ اسلام اور جلیل القدر صوفی سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ (1236-1143ء) کی خدمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ خواجہ اجمیریؒ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے ایک نہایت اہم بزرگ ہیں ۔ آپ برصغیر پاک و ہند میں سلسلۂ چشت کے بانی تصور کئے جاتے ہیں اور ’سلطان الہند‘ اور ’غریب نواز‘ کے القاب سے مشہور ہیں ۔ آپ ہندوستان میں اسلام کے اولین مبلغین میں سے تھے اور آپ کی کاوشوں سے لاکھوں افراد دائرہَ اسلام میں داخل ہوئے ۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے بجا لکھا ہے:’’ہندوستان میں جو کچھ خدا کا نام لیا اور اسلام کا کام کیا گیاوہ سب چشتیوں اور ان کے مخلص اور عالی ہمت بانی ٔسلسلہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے حسنات اور کارناموں میں شمارکئے جانے کے قابل ہے۔‘‘ (تاریخ دعوت و عزیمت: 3/92)
نیز ابو الفضل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’آئین ِ اکبری‘ میں لکھتا ہے:’ ’(آپ) اجمیر میں عزلت گزیں ہوئے اور اسلام کا چراغ بڑی آب و تاب سے روشن کیا، انکے انفاسِ قدسیہ سے جوق در جوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی‘ ‘۔
تبلیغِ اسلام کے مشن کے دوران آپ نے لمبے لمبے سفر کئے،آپ کے پیروں میں سوجن اور چھالے پڑگئے ۔ آپ نے تزکیہ نفس، اصلاح اخلاق اور روحانی تربیت کا مرکز اپنی خانقاہ کو بنایا اور اسلامی معاشرے کو مستحکم اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی انتھک کاوشیں کیں ۔ آپ نے اہل ہند کی زبان سیکھ کر اسے ابلاغ کا ذریعہ بنایا اور یوں لسانی عصبیت پر ضرب کاری لگائی ۔ ( شرح دیوانِ خواجہ: محمد علی چراغ)
اپنے روحانی کمالات اور علمی و اخلاقی طریقہَ تبلیغ سے آپ نے اپنے عظیم کردار سے دلوں کو فتح کیا اور اقلیم ولایت کے ’سلطان‘ تسلیم ہوئے ۔اپنی مومنانہ بصیرت و اعلیٰ اخلاق سے آپ لوگوں کو سادہ اور سیدھی نصیحتیں کرنے لگے اور اپنی اصلاحی مجالس سے دعوتِ دین کا کام کرنے لگے ۔آپ نے دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن مجید کے علم و حکمت اور تزکیہ و تصفیہ پر مبنی منہج پرچلانے کا عزم کیا اور اخلاص و امید سے اپنے کام کا آغاز کیا ۔ آپ نے دعوت و اصلاح کے کام کو قرآنی خطوط پر چلانے کی مخلص کوشش کی، ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہمیشہ ان کے زیرِ نظر رہاہے: اُدعُ اِلیٰ سَبِیلِ رَبِّکَ بِا الحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَا دِلھُم بِا الَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ط (52:61) ترجمہ: آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث بھی ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لئے حسین طرزِ تبلیغ کا انتخاب کیا ،جس میں علم و حکمت بھی ہے اور حسنِ کردار بھی، دلائل کی جولانی بھی اور روحانی اُبھار بھی ۔
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ تصوف کو خدا پرستی اور خدمتِ خلق کا سنگھم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ عبادت، طاعت کی صورت میں یہ تھی کہ مصیبت زدہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بے یارو مددگار لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور بھوکوں کو کھانا کھلایا جائے کیونکہ یہی قرآنی تعلیمات ہیں ۔ محمد علی چراغ حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں رقمطراز ہیں :’’آپ اپنے مریدوں کو یہ تعلیم دیتے تھے، کہ وہ اپنے اندر دریا کی سی فیاضی،سورج جیسی گرم جوشی اور ز میں جیسی مہمان نوازی پیدا کریں ۔ ‘ ‘حضرت خواجہ اجمیری ؒ کا قول ہے کہ ’’خدا کی محبت میں صادق یعنی سچا وہ ہے کہ جس پر شوق واشتیاق اس قدر غالب ہو کہ سوہزار شمشیریں اس کے سرپر ماریں تب بھی اس کو خبر نہ ہو ۔‘‘
خواجہ اجمیریؒ کی نظر میں شریعت اور طریقت میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اصل طریقت قرآن سنت کی تعلیمات پر خلوص کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ہی ہاتھ آسکتی ہے۔
خواجہ اجمیریؒ کےملفوظات کو ‘دلیل العارفین کے نام سے ان کے مرید ِخاص اور علمی و روحانی جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے مرتب فرمایا ہے اور اس کتاب کے آغاز میں ہی وہ نقل کرتے ہیں کہ ان کے پیر و مرشد خواجہ اجمیریؒ نے ایک مجلس میں فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کا فرض بجا نہیں لاتا، وہ کبھی اللہ تعالیٰ کے حقوق سے عہدہ برآنہیں ہو سکتا ۔ اور جو شخص سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ادا نہیں کرتا اور تجاوز کرتا ہے وہ شفاعتِ (مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ) سے بے بہرہ رہے گا۔جس نے کچھ پایا ہے خدمت سے پایا ہے ۔ پس مرید کو لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔شریعت میں ثابت قدم ہو جانے کے بعد دوسرا مرتبہ طریقت ہے ۔ طریقت میں شریعت کے امور بجا لانے کے بعد درجہ معرفت ہے، تو شناخت اور سنائی کا مقام آجاتا ہے، اس مقام پر ثابت قدم ہو جانے کے بعد درجہ حقیقت ہے ۔ یہ وہ مرتبہ ہے کہ جہاں پر جو طلب کیا جاتا ہے وہ پا لیا جاتا ہے ۔‘ ‘ (دلیل العارفین صفحہ 5،6،9)
کتاب کے آخر پر وہ حضرت خواجہؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں جو ان کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتا ہے:’’عارف آفتاب کی طرح روشن ہوتا ہے، (اپنی روشنی کسی سے اخذ نہیں کرتا) سارے جہاں کو روشنی بخشتا ہے اور جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی ۔‘‘ (دلیل العارفین : 84)
[email protected]
������������������