ایڈمنسٹریشن مضمون کی طرف رجحان۔ سہولیات ندارد روئیداد

سعدیہ ثناء۔پونچھ
یوں تو ہر مضمون کی اپنی اہمیت ہے لیکن موجودہ دور میں پبلک ایڈمنسٹریشن مضمون کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔اسی لئے زیادہ تر طلباء اس مضمون کی طرف راغب ہورہے ہیں۔نظم و نسق کی تعلیم کے بغیرانتظامی امور پر کام کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ہماری پوری انتظامیہ اسی پر چلتی ہے اور انتظامیہ میں کام کرنے کا طریقہ کیا ہے وہ سارا اسی مضمون کے اندر وضاحت سے بتایا جاتا ہے۔ اس مضمون کو یو پی ایس سی جیسے بڑے امتحانات میں آپشنل کے طور پر بھی رکھا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس مضمون کو سب سے پہلے امریکہ میں 1887ء میں ولسن نے شروع کیاتھا۔اس وقت اس نے ایک رسالہ میں اس پر ایک آرٹیکل لکھا۔جس کے بعداس مضمون کی اہمیت تمام لوگوں پر عیاں ہو گئی۔ انہوں نے ان دونوں مضامین میں مختلف فرق بھی واضح کیا۔اس کے بعد یو ایس اے کے کچھ کالجوں میں اس کو پڑھایا جانے لگا اور اس طرح اس مضمون کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ ہمارے ملک میں اس مضمون کی شروعات 1987ء میں ہوئی تھی۔ اس کو بڑے بڑے امتحانات جیسے یو پی ایس سی میں آپشنل کے طور پر لایا گیا،لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان سب کے با وجودملک کی نئی نویلی یوٹی جموں و کشمیر کے کالجوں میں اس مضمون کو ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا ہے۔
یہ مضمون صرف اور صرف ایک سینٹرل یونیورسٹی جموں میں ہے ،جہاں اس کو ایم اے اور پی ایچ ڈی پروگرام کے تحت لایا گیا ہے۔جبکہ جموں اور کشمیر جیسی بڑی یونیورسٹیوں اور کشمیر کی سنٹرل یونیورسٹی میں اس کو آج تک متعارف نہیں کرایا گیاہے۔آخر جموں کشمیر کے طلباء کے ساتھ اتنی بڑی ناانصافی کیوں ہو رہی ہے؟ ہائیر اسکینڈری اور کالجوں میں اس مضمون کا نام و نشان تک نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس مضمون میں کوئی بھی مستقل اسامی یہاں کے کالجوں میں نہیں آتی ہیں۔ بہت سے طلباء نے ملک کی دیگربڑی بڑی یونیورسٹیوں جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ،جے این یو سے پبلک ایڈ منسٹریشن میں ڈگریاں حاصل تو کرلی ہیں لیکن ان ڈگریوں کا کوئی فائدہ ان طلباء کو ابھی تک نہیں پہنچ سکاہے۔ اتنے اخراجات اور محنت سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد پبلک ایڈ منسٹریشن میں سند رکھنے والے طلاب بے روزگاری کا شکار ہیں۔ علاوہ ازیں سنٹرل یونیورسٹی آف جموں میں اس پروگرام کیلئے پی ایچ ڈی کورس کیلئے سال میں ایک یا دو سیٹیں آتی ہیں۔
جموں وکشمیر میں بے شمار طلبہ وطالبات نے اس مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد نیٹ بھی پاس کیااوریہی سوچا ہوگا کہ یہ نیا مضمون ہے ۔اسلئے اس کی اہمیت اور موجودہ دور کے حالات کو دیکھتے ہوئے آسانی سے اس میں تعلیم حاصل کرنے کافائدہ نوکری کی شکل میں مل جائے گا۔ لیکن افسوس ! جموں کشمیر میں اس کو لانے میں بہت زیادہ تاخیر کر دی گئی ہے، یہاں کے کئی نوجوان جنہوں نے بڑی بڑی ڈگریاں اس مضمون میں حاصل کر رکھی ہیں، ان کے اکیڈمک کیریئر کا ذمہ دار کون ہے؟۔ ڈاکٹر چیتنا کماری نے سال 2016ءمیں ایم اے سنٹرل یونیورسٹی آف جموں سے کیا اور اس کے بعد انہوں نے نیٹ بھی کوالیفائی کیا۔ اس کے بعد جواہر لعل نہرو جیسی بڑی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔انہیں کافی شوق تھاکہ وہ جموں وکشمیر کی بڑی یونیورسٹی میں جا کر بچوں کو اس کی اہمیت کے بارے میں بتائیں گی۔ ان کایہ شوق ابھی تک پورا نہ ہوسکا۔ انہوں نے مزید کہاکہ جس طرح ادھمپور کالج کے بچے نظم و نسق کے بارے میں پڑھ رہے ہیں، اسی طرح جموں و کشمیر کے ہر کالج میں طلباء کا حق ہے کہ وہ بھی اسکی تعلیم حاصل کریں۔وہیں گلناز چوہدری جوضلع پونچھ کی رہنے والی ہیں، انہوں نے بتایا کہ میں نے سنٹرل یونیورسٹی آف جموں سے 2017 میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد میری شادی ہوگئی۔میرا ارادہ تھا کہ اس مضمون میں سنٹرل یونیورسٹی آف جموں سے یا جموں کشمیر کی کسی بھی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کروں گی۔لیکن یہاں پرانہیں سیٹ نہیں ملی۔ اگر یہ چھ سے سات یونیورسٹیوں میں ہوتا تو میں ضرور اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرسکتی تھی۔
ڈوڈہ کی باشندہ نازیہ تبسم نے بھی سنٹرل یونیورسٹی آف جموں سے ایم اے کی ڈگری کر رکھی ہے۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کیلئے امتحان بھی پاس کیا، لیکن انہیں یہاں سیٹ نہیں مل سکی کیونکہ یہاں صرف ایک یا دو سیٹیں ہی دستیاب ہیں۔ یہ سیٹیں پہلے نیٹ پاس کرنے والے طلباء کو مل جاتی ہیں اور نازیہ جیسے کئی طلبہ وطالبات پیچھے رہ جاتے ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس مضمون کی جموں و کشمیر کےطلبا و طالبات کو نہ صرف ضرورت ہے بلکہ ان کا شوق بھی ہے کہ یہاں پبلک ایڈمنسٹریشن مضمون پڑھا اور پڑھایا جائے۔ تاہم موجودہ یوٹی انتظامیہ با لخصوص ایل جی صاحب کو یہ چاہئے کہ جموں و کشمیر میں ملک کے دیگر اداروں کی طرح پبلک ایدمنسٹریشن جیسے مضمون کو نافذکریں تاکہ اس میں ڈگری رکھنے والے طلبہ وطالبات کے مستقبل روشن ہوں۔(چرخہ فیچرس)