اینٹی کورپشن بیورو  | رشوت ستانی مخالف جنگ میں عوامی امیدوںکا محور

جموںوکشمیر میں انسداد رشوت ستانی ادارہ ’’اینٹی کورپشن بیورو‘‘نے قلیل مدت میں اپنے طریقہ کار سے عوام کے دل جیت لئے ہیں ۔ کورپشن سے نمٹنے کیلئے ایک نوزائد ادارے، جس کی عمر ابھی محض چند سال ہی ہے ،نے ان ابتدائی ایا م میں بڑے بڑوںکی ناک میں دم کرکے رکھا ہے ۔25اکتوبر 2018کو جب اُس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک کی سربراہی میں ریاستی انتظامی کونسل نے زیادہ موثر اور بامعنی انداز میں کورپشن کے خاتمہ کیلئے جموںوکشمیر کے اولین اینٹی کورپشن بیورو کے قیام کو منظوری دی تو کسی کے وہم و گمان میں نہیںتھا کہ ریاستی ویجی لینس آرگنائزیشن اور ویجی لینس کمیشن کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ چھوٹا سا ادارہ ایام طفلگی میںہی ایک ایسا دیو قامت جن ثابت ہوگا جس کے سائے سے بھی لوگ ڈریں گے ۔27

اکتوبر2019کو اینٹی کورپشن بیورو نے کام کرنا شروع کردیا اورآندھرا پردیس، ہماچل پردیش، تامل ناڈو اور مہاراشٹرا کے طرز پربنے اس انسداد رشوت ستانی ادارے کو مستحکم کرنے کیلئے فوری طورجموںوکشمیر میں دو پرانے انسداد رشوت ستانی پولیس تھانوں کے علاوہ مزید 6نئے تھانوں کے قیام کو بھی منظوری دی گئی اور یوں پورے جموںوکشمیرتک اس ادارے کا عملی دائرہ کار بڑھایاگیا۔2020سے اب تک اس ادارے نے انسداد رشوت ستانی قانون کی مختلف شقوں کے تحت سرکاری ملازمین و دیگر لوگوں کے خلاف رشوت ستانی کے 200سے زیادہ کیس درج کئے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کیس رواں سال کے دوران ہی درج کئے گئے ہیں۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اپنی سرکاری پوزیشن کا ناجائز استعمال کرنے اور رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے لوگوں کے خلاف اب تک اس سال میں75سے زیادہ کیس درج کئے گئے ہیں۔اسی طرح 2021میں بیورو نے61جبکہ2020میں71کیس درج کئے تھے ۔گزشتہ کچھ دنوں سے محکمہ مال کے حکام کے پیچھے بیورو ہاتھ دھو کر پڑے گا اور یکے بعد دیگرے محکمہ کے حکام کو رنگے ہاتھوں دھر لیاجارہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اینٹی کورپشن بیورو کورپشن کے خاتمہ اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے کئی ایک اقدامات کررہا ہے۔

اے سی بی نے ایک ایسا میکانزم اپنا ئے رکھا ہے جہاں ایک عام آدمی کو سرکاری سسٹم میں کسی راشی اہلکار یا عہدیدار کی شناخت کرکے بیورو کو اپروچ کرنا آسان بنادیاگیا ہے جس کے بعد شکایت کنندہ کے الزامات کی پہلے تحقیق کی جاتی ہے اور بیورو جال بچھا کر راشی ملازمین کو رنگے ہاتھوں دھر لیتا ہے۔اب ایل جی منوج سنہا نے اے سی بی اور عمومی انتظامی محکمہ کو رشوت ستانی کے انسداد میں نئی مثال قائم کرنے کیلئے مشترکہ طور کام کرنے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کو بھی کہا ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت سرکاری سطح پر ایسی کمیٹیا ں بھی قائم کی گئی ہیں جو ملازمین کی رشوت ستانی شکایات کا جائزہ لیکر ان کی قبل از وقت سبکدوشی کی بھی سفارشات سرکار کو پیش کرتی ہیں۔حالیہ دنوں میں سرکار نے ایسی ہی محکمانہ کمیٹیوںکی سفارشات پرمکانات و شہری ترقی محکمہ کے8ملازمین کو قبل ازوقت نوکریوں سے سبکدوش کردیا۔ اکتوبر2018میں بنائی گئی اینٹی کوریشن بیورو کا منصوبہ سینٹر فار میڈیا سٹیڈیز رپوٹ کے بعد بنایاگیاجس میںبھارت میں رشوت ستانی کے معاملہ میں جموں و کشمیر کو کرناٹکہ، تامل ناڈو اور آندھرا پردیس کے ساتھ بھارت کی اُن20 ریاستوں میں شامل کیا گیا تھا جہاں رشوت ستانی عروج پر ہے۔7 201 میںتیار کرنے والے ماہرین کی سروے رپوٹ میں 33فیصد افراد نے جموں و کشمیر میں رشوت ستانی کیلئے سیاسی لیڈران کوذمہ دار قرار دیا تھا۔ جموں و کشمیر کے اُس وقت کے چیف سیکریٹری بی وی آر سبرمنیم نے دعویٰ کیاتھا کہ جموں و کشمیر میں رشوت ستانی کو ختم کرنے کیلئے اینٹی کورپشن بیورو قائم کیا گیا ہے تاکہ رشوت ستانی کے الزامات کی غیر جانبدارنہ تحقیقات عمل میں لائی جاسکے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جموں و کشمیر میں رشوت ستانی اپنے عروج پر ہے مگر جموں و کشمیر میں موجود بے چینی اور پریشان کن صورتحال میں اس ادارے کا غیر جانبدارانہ طرز عمل اختیار کرنا لازمی ہے کیونکہ ایسے بھی الزامات لگائے جارہے ہیں کہ اس ادارے کو سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیاجارہا ہے ۔اے سی بی کی جانب سے سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والے افراد کے خلاف کاروائی بھی قابل ستائش ہے مگر یہ کاروائی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہونی چاہئے ۔

ریاستی اداروں کو سیاسی انتقام گیری کیلئے استعمال کرنے کے مواقع موجود ہوتے ہیں مگر اینٹی کورپشن بیورو نے ابتک بہترین کام کیا ہے۔ اینٹی کورپشن بیورو کو سٹیٹ ویجی لنس سے الگ کرنے کا سابق گورنر کا فیصلہ ریاست میں رشوت ستانی کے خلاف بڑا فیصلہ تصور کیا جارہا ہے۔سٹیٹ و یجی لینس رولز2013میں کئی ترامیم کرنے کے بعدسابق گورنر نے اینٹی کورپش بیورو کو ایک آزاد اور خود مختیار ادارہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس ادارہ کے قیام کیلئے انسداد رشوت ستانی ایکٹ مجریہ2006اورجموں وکشمیر سٹیٹ ویجی لینس کمیشن ایکٹ مجریہ2011میں ترامیم کی گئی تھیں جو اب یہ دونوں ادارے موجود نہیں رہے ہیں اور جموںوکشمیر تنظیم نو قانون کے تحت دونوں اداروں سے متعلق قوانین ختم کرکے ان کا بوریا بسترا گول کردیاگیا ہے ۔تاہم اینٹی کورپشن بیورو قائم ہے اور اس کو ملنے والے وسیع تر اختیارات اور آزادی اپنی جگہ موجود ہی نہیں ہیں بلکہ ان اختیارات میں مزید اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے ۔اینٹی کورپشن بیورو کو ملنے والی آزادی اور وسیع اختیارات کے بعد دیکھنا ہے کہ یوٹی سرکار کایہ ’’جن‘‘ وادی میں کورپشن کی وبائی بیماری کو ختم کر پائے گایا یہ بھی محض ایک علامتی ادارہ بن کر رہ جائے گا جیسا کہ ماضی کے ویجی لینس کمیشن ،احتساب کمیشن اور ویجی لینس آرگنائزیشن کے ہوا تھا۔فی الحال بیورو اچھا کام کررہاہے تاکہ بیشتر کیس ابھی عدالتوں میںہی ہیں اور دیکھنا یہ ہوگا کہ بیورو ان کیسوں میں کیسے ملزمان کو عدالتوں سے سخت سے سخت سزائیں دلواتا ہے کیونکہ جتنا زیادہ عدالتوں سے ایسے کیسوں میں لوگوں کو سزائیں ملیں گی ،اُتنا ہی سسٹم میں جوابدہی کا عنصر قائم ہوجائے گا اور نتیجہ کے طور پر کورپشن کے رجحان میں بھی خود بخود کمی آجائے گی جو بالآخر عوام کی راحت کاری پر منتج ہوگا۔