ایسی ہونی چاہئے ہماری نسل ِ نو!

محمد ذیشان

قومیں عروج و زوال کے دائمی سفر میں ہر وقت رواں و دواں رہتی ہیں، تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو عروج کی سمت ِگامزن اقوام کی عادات و اطوار، تنزلی اور زوال کی جانب روبہ سفر قوموں سے یکسر مختلف ہو تی ہیں، اقوام عالم میں بقاء اور سر اٹھا کر جینے کے لئے جو تگ و دو کرنی پڑتی ہے اس کے لئے محنت اور منزل کو پالینے کی لگن اور جستجو کا جذبہ چاہیئے تاکہ عزت و وقار اور خود مختاری کے ساتھ دنیا کے شانہ بشانہ اپنی شرائط اور اپنے قوانین کے ساتھ چلا جا سکے ،حصولِ پاکستان کا مقصد بھی یہی تھا۔
کام، کام اور صرف کام‘‘قائد کا یہ فرمان پورا کرنے کے لئے دو چیزیں اشد ضروری ہیں، ایک سخت کوشی اور دوسرا چستی،سخت کوشی، سہل پسندی کو ختم کرنے کے بعد حاصل ہو تی ہے اور چستی، سستی کے خاتمہ سے۔ صد افسوس کہ سات دہائیاں گزرنے کو ہیں، یہ دو کام ہم نہ کر سکے اور آثار یہی بتاتے ہیں کہ ہم نے یہ دو کام کرنے بھی نہیں۔ ہاں! روز بروز، سستی، کاہلی، سہل پسندی، شارٹ کٹ کے ذریعے امیر سے امیر تر ہونے کی خواہش قوم کے مزاج اور عادات میں سرایت کر رہی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلاف نے اپنے دور میں بہت کچھ کر کے دکھایا ، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں جس طرح اسلاف نے پاکستان بنایا اور بے سروسامانی میں پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑ کر پاکستان کو قائم و دائم رکھا۔ کیا اب یہ نئی نسل پر فرض نہیں کہ اس پاکستان کی ترقی کے لئے تعمیری کام کریں؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ سوائے گپیں ہانکنےفارغ بیٹھنے کے۔
ہمارے ہاں دی جانے والی تعلیم کا مقصد صرف ایک ہے ،حصول نوکری، کہیں ٹائپسٹ بھرتی ہو جائیں، کہیں ’’سٹینو‘‘لگ جائیں اور اگر کوئی افسری کی خواہش رکھتا بھی ہو تو یہ سن سن کر کہ پڑھ لکھ کے افسر بن جائے گا ،زندگی آسان ہو جائے گی، رشتہ بھی آسانی سے مل جائے گا، پیسہ بھی خوب ہوگا، افسری کا رعب بھی ہوگا اور لوگ سلام بھی کیا کریں گے۔
اب خود سوچیں کیا زندگی اسی چیز کا نام ہے؟ کیا یہ صرف اس لئے ہے کہ، اسے آسانی سے گزار دیا جائے لیکن ہمارا نوجوان، اپنے بڑوں کے فرمودات پر عمل کرکے افسری کی خواہش دل میں لئے مقابلے کے امتحان میں جا بیٹھتا ہے، یعنی محنت اور پڑھائی بھی اس شوق کے تحت کروائی جا رہی ہے کہ یہ تین چار سال دل لگا کر پڑھ لے پھر آگے عیش ہی عیش ہوں گے، کام نہیں کرنا پڑے گا، پکی سرکاری نوکری ہوگی۔
جب نوجوانوں کے محنت کرنے کا جذبہ اور مورال یہ ہو گا تو نااہل نسل ہی پروان چڑھے گی۔ آج کی نوجوان کےدیدوں کا پانی ڈھل گیا ہے، کوئی شرم نہیں ،کوئی لحاظ نہیں ، بڑوں کا ادب کرنا تو یہ جانتے ہی نہیں اور بزرگوں کی بات کا پاس نہیں رکھتے۔ اعلٰی عہدوں پر برا جمان رہنے والےجنہوں نے جہان بھر کو گھوم پھر کے دیکھا، وہ اپنے تجربے قوم کے نونہالوں اور نوجوانوں تک پہنچائیں ،قوم کی فکری آبیاری کریں ، اُن میں کتب بینی کا شوق پیدا کریں۔
لائبریریز اور کتابوں کی دکانیں ناپید ہوتی جارہی ہیں، کتاب پڑھنے کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نوجوان کس ڈگر پر ہے۔کیا یہ زندہ قوموں کی علامات ہیں؟، کیا زندہ قومیں ایسا کرتی ہیں؟ ہاں! اگر زندگی چاہیے تو اسلاف کی طرف لوٹنا ہوگا ،ان سے نسبت کو بحال کرنا ہوگا، اپنے دامن کو ان کے دامن سے باندھنا ہو گا ورنہ یہ بے جان اور بے کار ہم ’’زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں‘‘کا نعرہ بلند کرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال نےفرمایا کہ:
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
کہ تُو گفتار،وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارہ
ثریّا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
(حوالہ: بانگِ درا)
کوئی تو ہو جو نسلِ نوکو یہ سمجھائے کہ عمل سے بھر پور زندگی، تعلیم سے بہرمند ، ہنر و کمال سے آشنا ، تربیت سے مزین زندگی۔ دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے لئے پر عزم، منزل پا لینے کی جستجو میں مضطرب ،جو ملک کی خاطر عملی بنیادوں پر کچھ کر گزرنے کا جذبہ و اہلیت رکھتے ہوں۔ ایسی ہونی چاہیے نسلِ نو۔