اہلِ مغرب کےخرافات اور ہم مسلمان ! لمحۂ فکریہ

قیصر محمود عراقی

ہرسال کی طرح ایک مر تبہ پھر آج ماہِ اپریل کی پہلے تاریخ ہے ۔آج بہت سارے مسلمان اپنی بر بادی کا جشن مناتے ہیں، یہ بات جانے بغیر کہ اپریل فول کی حقیت کیا ہے ؟ آج ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے، اپنی عارضی خوشی کے لئے دوسروں کو حادثات کی جھوٹی اطلاعات دے کر تمسخر کا نشانہ بنائیں گے ، جھوٹ بولیں گے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جھوٹی اطلاع دینے سے دوسرے پر کیا بیتے گی ؟ آج ہر حال میں نو عمر لڑکے اپریل فول منانے کی کوشش کرینگے ، جبکہ ایسی رسومات وہ قومیں مناتی ہیں جو اخلاقی اور معاشرتی طور پر پستی میں گری ہو ئی ہوں ۔ اپریل فول ایک رواج بن گیا ہے، جس سے معصوم اور بے خبر لوگوں کو اچانک بُری خبر دے کر انتہائی اذیت میں مبتلا کر دیا جا تا ہے ۔ اہل مغرب کی بہت سی خرافات میں سے ایک نام’’ اپریل فول‘‘ ہے ۔ اسلام ہمیں ایسی باتوں کی ہر گز اجازت نہیں دیتا، جس سے کسی کی دِل آزاری ہو ۔ لیکن کیا کیا جا ئے ، اہل مغرب کی طرح ہم بھی اب جھوٹ اور مکاری کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اندھی تقلید کے شوق نے ہمارے معاشرے میں ان گنت برائیوں کو جنم دیا ہے، انہیں میں سے ایک رسم اپریل فول بھی ہے۔ اس غیر اسلامی ، غیرقومی اور غیر اخلاقی رسم کے تحت ہم یکم اپریل کو جھوٹ بولتے ہیں، لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں، بے وقوف بناتے ہیں، جو شخص جتنی صفائی اور چابکدستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے، اتنا ہی اُسے قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ احادیث میں جھوٹ کے بارے میں جو سزا لکھی ہے، اُسے پڑھکر روح کانپ اٹھتی ہے ۔لیکن ہم ہیںکہ جو سرسے لیکر پائوں تک جھوٹ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور پھر فخر کے ساتھ’ اپریل فول‘ کے نام پر بھی جھوٹ بولتے ہیں ، یہ سوچے بغیر کہ ہمارا انجام کیا ہوگا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اہل مغرب نے ہمیں انٹر نیٹ اور دوسرے ٹیکنالوجی میں اس طرح سے گم کردیا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں سکتے۔ ہمیں ایسی اُلجھنوں میں ڈال دیا گیا ہے کہ جو سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ ایسے میں کون یہ سوچنے پر اپنا وقت برباد کرے کہ جھوٹ کی سزا کیا ہے۔
سب سے زیادہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہم قومی تہوار منانے کے لئے دوسری اقوام کے محتاج ہیں۔ کیا ہم خوشی کے لمحات گزارنے اور ان کا اظہار کرنے سے عاجز آچکے ہیں کہ دوسروں کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ یقینا ًایسا نہیں ہے، بلکہ ہماری اپنی تہذیب ہے، اپنی ثقافت ہے، اپنا رہن سہن ہے۔ جہاں تک دوسرے اقوام کی بات ہے تو کسی بھی قوم کے تہوار اس کے شعار ہوتے ہیں، اس قوم کی اجتماعی زندگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو ربّ کائنات نے مسلمانوں کوعیدالفطر اور عید الاضحی کے دن عطا کئے ہیں جن میں ثقافت کا مکمل اظہار بھی ہے اور تفریح کا سنہرا موقع بھی۔ اگر اس کے باوجود بھی ہم مغرب کی نقالی سے باز نہیں آتے ،نہ اپنی روش بدلتے ہیں اور نہ ہی خُو چھوڑ دیتے ہیں تو یقین جانیں ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
یہ امر انتہائی نقصان کا باعث ہے کہ آج ہم دین حق اسلام کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اغیار کی بے ہودہ اور بد تہذیب عادت کے گرویدہ بنتے چلے جارہے ہیں، دین اسلام ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے، اس کے باوجود ہم یہود ونصاریٰ کی نقالی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب واقربا کو بے وقوف بناکر ان کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ جھوٹ کی وجہ سے بے شمار لوگوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اپریل فول کا شکار ہونے والے لوگ شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اورکتنے خوش وخرم جوڑے مستقل طور پر ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں، اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی گناہ ونقصانات کا چاہتے ہوئے بھی ازالہ وکفارہ ادا نہیں کرسکتے۔
ہمیں یہ پتہ ہونا چاہئے کہ دین حق اسلام میں جھوٹ کو نفاق کی علامت بتلایا گیا ہے اور رسول اکرم ؐنے جھوٹ کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ آپ ؐ نے اس شخص پر خصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنساتا ہے۔ اس لئے ہمیں اغیار کی اندھی تقلید کی بجائے دین اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے اور اپنے اندر ایسے اوصاف اور اپنی شخصیت میں ایسا نکھار پیدا کرنا چاہئے کہ ہماری ذات سے لوگوں کو نقصان یا ان کی دل آزاری کی بجائے، لوگوں کی معانت وخیر خواہی ہو،تاکہ ہم مستحق عذاب ہونے کے بجائے فلاح وکامیابی پاسکیں۔ لہٰذا جھوٹی کہانیوں اور لاحاصل کوششوں میں اپنی صلاحیتیں صرف نہ کریں ، مصنوعی خول سے باہر نکلنے کی کوشش کریں اور اسلام کے سنہری اصولوں کو اپنائیں۔
رابطہ۔6291697668
[email protected]>