آوارگی

اُفق کے کِنارے سے آزاد ہو کر
نِکلتی ہے آوارگی جب تمہاری
دریچے سے دنیا تجھے دیکھتی ہے
ستاتی ہے تجھ کو تری عزاداری
کہ آوارگی کا ہے موسم نرالا
سڑک کے کنارے ہیں ڈھیرا لگائے
یہ کوچے یہ بستی یہ سب چھوڑتے ہیں
یہ پُر پیچ گلیوں میں آتے نہیں ہیں
نہ عصمت کی پروا نہ عزّت کے بھوکے
لُٹاتے حصارِ گرد کارواں سب
یہ خوابوں کے بازار کو بیچتے ہیں
حسیں زندگی کے فدائی نہیں ہیں
نہ نوری ہے ان میں نہ ناری ہے بستی
یہ پربت کے باسی ہیں جنگل کے شیدا
کیا نام رکھا ہے آوارگی کا؟
 
مکافات میں لوگ کیوں کر پڑے ہیں
یہ دنیا کی آوارگی تو نہیں ہے
یہ آوارگی ہے خدائی وسیلہ
تمہاری نہ منزل نہ رستہ کہیں ہے
نہ اسبابِ دولت نہ شاہ و مصاحب
فقیری تمہاری ہے اصلِ امیری
نہ مشرق تمہارا نہ مغرب کی لالچ
سفر لاحقِ جان و جگر جانتے ہیں
نہ دنیا سی رنگت نہ شور و شرابا
بساتے ہیں دنیا وہ سب سے الگ ہی
جہاں دن میں راتیں جہاں رات بھاری
سڑک کے کِنارے ہیں مدہوش رہتے
مگن اپنے دُھن میں وہ ذکرِ الٰہی
اگلتے ہیں شعلہ نوائی کے جیسے
تصوّر میں اپنے خدا کو بساتے
یہاں   مغفرت کا وسیلہ یہی ہے
ہے درپیش مصائب و آلام ان کو
کبھی مسکراتے کبھی زار روتے
نکلتے سفر کو تو رکتے نہیں ہیں
توکّل پہ  تیرے جگر وارتے ہیں
ہیں رازِ نہفتہ کے آخر فدائی 
یہ آوارگی ہے یہ آوارگی ہے!!!
یہ دنیا کی آوارگی تو نہیں ہے
یہ آوارگی ہے خدائی وسیلہ
 
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ، 6005929160