اِبہام افسانہ

ریحانہ شجرؔ

ڈیوٹی ختم ہونے سے پہلے میں وارڈ میں مریضوں کو دیکھنے گئی لیکن ایک بیڈ خالی پڑا دیکھ سامنے والی مریضہ سے پوچھا کہ بیڈ نمبر دس کی مریضہ کہاں گئی۔ اس نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا وہ بچے کو لے کر ماہر اطفال کے پاس گئی ہے۔مجھے یاد آیا اس کا بچہ کافی کمزور تھا۔خیر میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور نکلنے کی تیاری کرنے لگی۔ ٹرین چھوٹ جانے کے ڈر سے میں نے جلدی سے میری ساتھی،جس کی ڈیوٹی شروع ہو رہی تھی، کو مریضوں کے بارے میں جانکاری دی اور نکل گئی۔
دن ڈھل چکا تھا شام کے سائے روشنی کی ہر بوند کو اپنی آغوش میں لینے کو بیقرار تھے اور میں کافی کوششوں کے بعد وقت پر ریلوے اسٹیشن پہنچ گئی۔ اُف یہاں تو غضب کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اوپر سے یہ گہرے بادل، کوئی چہل پہل نہیں جو ہمیشہ اس گھڑی ریلوے سٹیشن پر ہوتی ہے۔ابھی تک تو ننھی ننھی پھوار ہو رہی تھی اب اچانک موسلا دھار بارش ہونے لگی۔
’ ٹرین کئی دنوں سے بند پڑی ہے شاید آج بھی نہیں چلے گی‘ ،کہیں سے آئی ہوئی یہ آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ جوسن کر میری تو جان ہی نکل گئی۔
میں سوچ میں پڑ گئی اگر ایسا ہے تو مجھے کافی مسافت طے کرنی پڑے گی۔ریلوے ٹکٹ کونٹر کی کھڑکی کھلی دیکھ کر میں نے ٹرین کے بارے میں دریافت کرنا مناسب سمجھا اور تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔ڈیوٹی پر موجود ایک بندہ بیٹھا تھا۔جس نے بھاری بھرکم جیکٹ پہن رکھا تھا ،سر پر فَر والی ٹوپی جو اس کے کانوں کو بند کیئے ہوئے تھی اور ایک موٹا سا اون کا مفلر گردن کے اردگرد باندھ دیا تھا۔اپنے وجود کو اتنا ڈھانپے کے باوجود وہ سردی سے ٹِھٹُھر رہا تھا ۔چہرے کے ہاو بھاو سے وہ دوسری ریاست کا مکین لگ رہاتا،جسے دیکھ کر مجھے چلے کلان کی سردی کا مزید احساس ہونے لگا اور میں نے دھیرے سے پوچھا ، ’’سر، ! آج ٹرین چلے گی کہ نہیں۔‘‘
اس نے ضرورت سے زیادہ اونچی آواز میں بولا ’ہاں ‘آج ٹرین چلے گی، گاؤں میں پتھراو کی وجہ سے کئی دنوں تک سروس معطل کردی گئی تھی مگر آج ٹرین سروس بحال کردی گئی ہے، لیکن ذرا د…ی ….ر …..سے آگے جائے گی، اس نے لفظ ’دیر ‘ کو تھوڑا زور دے کر کہا۔
اطمینان بھری لمبی سانس لینے کے بعد میں ریل کی اور جانے لگی۔میرے قدم مشکل سے اُٹھ رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ میں ایک قدم آگے چلنے پر دو قدم پیچھے چلتی جا رہی ہوں۔ دراصل مجھے شام کو سفر کرنے میں کوفت محسوس ہو رہی تھی ۔انجانے خوف سے میں الجھن میں رہتی تھی۔ جتنا اندھیرا پھیل رہا تھا اتنا میرے وسوسے اور میں گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔تھوڑا آگے بڑھنے پر مجھے سیٹیاں بجنے کی آوازیں سنائی دینے لگی۔ڈر کی وجہ سے اِدھر میری دھڑکنیں تیز ہونے لگیں اُدھر میرے چلنے کی رفتار زور پکڑنے لگی ۔ میں نے جلدی سے ’آیت الکرسی‘ کا ورد کرنا شروع کیا۔
تھوڑا آگے بڑھنے پر جونہی میں وِرد کرنا روک دیتی تھی پیچھے سے کوئی منفرد آواز میں زور سے ’ ہنومان چالیسا ‘،پڑھ کرآگے بڑھ رہا تھا۔چلتے ہوئے یہ آواز میرے نزدیک آنے لگی، میں نے مشکل سے آدھی گردن گھما کر دیکھا۔دھندلکے میں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کون ہے۔
اس نے اپنی کھردری آواز میں کہا ، جنم جلی تمہیں دیر کیوں ہوگئی گردن کو لچک دے کر اور ہلکی سی تالی بجا کر کہا، ہمارے پیچھے ، آوارہ گرد لفنگے پڑے ہیں۔
اب میں سمجھ گئی نہ یہ مرد ہے اور نہ ہی عورت ، یہ تو خواجہ سرا ہے۔ ہمارے گاؤں کی چمپا رانی جو پچھلے کئی دہائیوںسے گاؤں کی ایک پہاڑی پر واقع ہنومان مندر میں رہتی ہے اور اس پہاڑی کے دامن میں ایک خانقاہ بھی ہے۔ سنا ہے کچھ دہایئوں پہلے جب لوگوں نے یہاں سے ہجرت کی تھی چمپا رانی کے گھر والوں نے اس کو خواجہ سرا ہونے کی وجہ سے یہیں چھوڑ دیا تھا۔ یہ بھی سنا ہے چمپا رانی ان دنوں کم سن تھی۔تب سے گاؤں والے اس کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے تھے۔میں نے اکثر خانقاہ کے باہر والے دروازے پر چمپا رانی کو سجدہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
چمپا رانی کی ایک اور تالی نے مجھے چونکا دیا اور وہ اپنے ہونٹوں کو گول گھما کر کہنے لگی کہاں کھو گئی ہو ہوشیار رہو کہیں کوئی اونچ نیچ ہوگئی تو ….! میں نے کہا، ٹھ ٹھ ٹھیک ہے ۔میں خوف و دہشت کے پسینے میں شرابور آگے بڑھ کر ٹرین میں بیٹھ گئی۔ ظاہر سی بات ہے ٹرین خالی تھی کوینکہ ابھی بیشتر لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ ٹرین سروس بحال ہو گئی ہے۔میں ایک سیٹ پر جاکر بیٹھ گئی۔ راحت کی سانس لیتے ہوئے میں دائیں بائیں نظریں اٹھائی تو کونے میں آوارہ گرد پان چبا چبا کر سیٹیاں بجانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ پر بیٹھنے میں بہتری محسوس کی ،جہاں سامنے والی سیٹ پر کوئی چادر اوڑھے سو رہا تھا۔میرے اٹھتے ہی جیسے کسی نوزائیدہ بچے کے رونے کی آواز آنے لگی لیکن میں آگے چل پڑی۔ ان آوارہ گردوں میں سے کسی نے آواز لگا دی ، ارے او چھوری یہ پاپ کی پوٹلی یہاں کیوں چھوڑ کے جا رہی ہو۔ دھیان نہ دیتے ہوئے میں آگے نکل گئی ۔لیکن پھر تین لوگ ایک ساتھ قریب آکے ایک بیگ جس میں بچہ تھا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے یہ اٹھا لو یہاں سے، ورنہ پولیس کو بلایا جائے گا۔ چیخ چیخ کر میں نے کہا یہ میں نے نہیں چھوڑا یہ میرا بیگ نہیں ہے اور نہ ہی یہ بچہ میرا ہے۔میرے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں تھا لیکن میں روئے جا رہی تھی۔اچانک چادر اوڑھے بندہ اٹھ گیا جس کا قد کافی لمبا اور جو حوالدار کی وردی زیب تن کئے ہوئے تھاگرجدار آواز میں کہنے لگا۔یہ بچہ میرا ہے!
اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ موالیوں کو لگا اب ان کی خیر نہیں، وہ دم دبا کر بھاگ گئے ۔ ان کے چلے جانے کے بعد حوالدار نے کہا آپ سے پہلے ایک عورت ہاتھ میں یہ بیگ لے کے ادھر بیٹھ گئی تھی لیکن بعد میں وہ ٹریں سے نیچے اُتر گئی۔ جب میں نے پوچھا بیگ یہاں چھوڑ کر کہاں جارہی ہو تو اس نے کہا تھا میں پانی پینے جارہی ہوں۔ اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی میں نے اس کو سمجھایا کہ میں پانی لےکر آؤں گا لیکن اس نے کہا مجھے باتھ روم بھی جانا ہے۔مگر اس وقت میں قیاس نہیں کر پایا کہ اس بیگ میں بچہ ہو سکتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ وہ زیادہ دور نہیں گئی ہوگی کیونکہ اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔اس کے ساتھ ہی حوالدار کہیں چلا گیا ۔ چمپا رانی پاس ہی کھڑی تھی اور وہ بچے کو سنبھالنے لگی۔
کچھ ہی دیر میں پولیس والے نے ایک عورت کو گود میں اٹھا لایا جو نیم مردہ حالت میں تھی۔
اس کو دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔یہ ہسپتال والی مریضہ تھی جس کا بیڈ خالی پڑا تھا ۔میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ،
ت۔۔۔تم ہسپتال سے یہاں کیسے آگئی ؟ت۔۔۔۔تمہیں ابھی ہسپتال سے ڈسچارج بھی نہیں کیا گیاہے اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ تم شوہر کا انتظار کر رہی ہو ۔میں نے اس کو ایک ساتھ کئی سوالات پوچھے ۔ لیکن اس کا چہرہ رنگ کھو چکا تھا اور وہ جزوی طور کھلی آنکھوں سے ہم تینوں کی طرف بس دیکھ رہی تھی اور بنا کچھ کہے ایک آخری ہچکی لے کر ہمیشہ کے لئےخاموش ہو گئی۔ چمپا رانی اور پولیس والے دونوں نے حیران ہوکر مجھ سےپوچھا یہ کون ہے۔میں ان سے کہا مجھے نہیں پتہ ، البتہ یہ بچے کو جنم دینے کے سلسلے میں زنانہ ہسپتال میں ایڈمٹ تھی۔ میں وہیں پر بحیثیت نرس کام کرتی ہوں۔
چمپا رانی نے اپنی انوکھی لچک سے ہاتھ ہلاتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا یہ بچہ یا تو تم جیسا ہے یا پھر میرے جیسا، تبھی اس کو اس طرح چھوڑا گیا ہے۔
حوالدار نے اس کی طرف ہیبت ناک نظروں سے دیکھا اور چمپا رانی بھیگی بلی بن کر ایک طرف بیٹھ گئی۔
اس عورت کے پاس سے اس کی کیس ہسٹری اور ڈاکٹر کا نسخہ ملا جس سے پتہ چلا اس عورت کا یہ تیسرا بچہ ہے جو اس کے باقی دو بچوں کی طرح ہی جنسی ابہام sexual ambiguity کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔
جو اس عورت کے لئے شاید ناقابل برداشت بات رہی ہو گی اور جس کی وجہ سے اس نے بچے کو ٹرین میں چھوڑ دیا۔
چمپا رانی نے اپنے گال پر انگلی رکھ کر اور سر کو ذرا جنبش دےکر کہا میں کہتی تھی نا، یہ بچہ یا تو تیرے جیسا ہے یا پھر میرے جیسا۔حوالدار چمپا رانی کو تکتا رہ گیا۔چمپا رانی کی آواز میں اچانک تیزی آئی اس نے اردگرد جمع ہوچکے لوگوں سے پوچھا ،کوئی ہے جو اس کو اپنائے؟ یہ سنتے ہی سارے لوگ بھاگنے لگے۔ چمپا نے کہا اچھا اس کو مت اپنا لو لیکن ایک مہربانی کرو کوئی اس غریب کے کانوںمیں اذان تو دو۔ ان لوگوں کو شاید اس بچے کو اذان دینا اپنی شان کے خلاف لگا اور وہ ایک ایک کر کے چل دیئے یہاں تک کہ حوالدار بھی منظر سے غائب ہوگیا۔
چمپا رانی نے بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور مجھ سے مخاطب ہوکر کر کہنے لگی اس بچے کے کان میں اذان دو۔ میں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا عورت ہونے کی وجہ سے میں اذان نہیں دے سکتی۔
چمپا رانی نے بھیگی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور درد بھری آواز میں بچے کے کان میں کچھ اس درد بھری آواز میں پڑھا کہ اچانک جیسے کئی غیر مرئی قوتیں مل کر اوپر والے کا زکر کرنے لگی اور وہ بچے کو لیکر آگے نکل گئی۔
وزیر باغ، سرینگر
[email protected]