اِبن آدم یاد رکھ، ایک دن تو مرنا ہے! لمحہ ٔ فِکریہ

جاوید اختر بھارتی

انسان کتنا خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے، رات کو سوتا ہے اور صبح کو اٹھتا ہے ،پھر صبح سے شام تک سچ بھی بولتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم عمل رہتا ہے۔ بسا اوقات اپنی خوشی کے لئے دوسروں کی خوشیاں چھین لیتا ہے تو کبھی اپنے اہل و عیال کی خوشی کے لئے دوسروں کے اہل و عیال کی خوشیاں چھین لیتا ہے۔ نہ مرنے کی فکر، نہ قبر میں جانے کی فکر، نہ حساب کتاب کی فکر، نہ اپنے محاسبہ کی فکر، بس مادیت کے پیچھے بھاگتا ہے۔ ہمسایہ، رشتہ دار ،یتیم و غریب کس حال میں جی رہے ہیں، کوئی فکر نہیں۔حیرت ہے کہ مردے کو قبر میں دفناتے اور مٹی دیتے ہوئے بھی ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے۔اس بات کا احساس کئے بغیر کہ کل مجھے بھی کوئی اسی طرح کسی قبرستان میں دفن کرکے چلا جائے گا۔ظاہر ہےکہ پیدا ہونے کے بعد بچہ رونے کے سِوا کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اُس وقت اُسے خود رونے اورچُپ ہونے کا شعور نہیں ہوتا، چل پھر نہیں سکتا، بھوک پیاس لگے تو زبان سے کہہ نہیں سکتا ،جبکہ اس کے پاس دماغ ، منہ میں زبان، سینے میں دل اور ہاتھ پاؤں بھی موجود ہوتے ہیں۔ گویا یہ اللہ کاعالم انسانیت کے لئے پیغام ہے کہ دیکھ جس طرح پیدا ہونے کے بعد انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے مگر اللہ کی طرف سے وہ کچھ وقفہ کے لئے سیل مہر ہوتا ہے،حالانکہ ربّ العالم کسی بچے کے پیدا ہوتے ہی چلانے پر بھی قادر ہے، مگر ایسا نہ کرکے ربّ العالمین نے اپنے بندوں کو ایک زبردست آفر دیا ہے کہ پیدا ہونے کے بعد اگر زبان سے بول نہیں سکتا، ہاتھ پاؤں سے چل اور پکڑ نہیں سکتا، دل و دماغ سے کچھ سوچ نہیں سکتا اور فیصلہ نہیں لے سکتا تو اس طرح ایک مدت تک تو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔پھرانسان جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے، اس کے اندر تبدیلی آنے لگتی ہے۔ اس کے جسم کے سارے اعضاء حرکت میں آجاتے ہیں۔ وہ سوچتا بھی ہے اور فیصلہ بھی لیتا ہے، چاہے کوئی فٹ پاتھ پر سوئے یا مخمل کے گدے پر، بالآخرایک دن اُسےموت کا سامنا کرنا ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے سورماہوئے، دانشور اور فلاسفر ہوئے، بڑے دولتمند، عقلمند، شہرتمند ہوئے، حکمران ہوئےاور اکیلے چلتے بنے۔ کیونکہ یہی دنیا کا دستور ہے اور یہی قانون قدرت ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا میں انسان ایک ایک انچ زمین کے لئے قتل و غارتگری کرتا ہے، جھوٹ اور مکر و فریب کا جال بچھاتا ہے، کمزوروں پر ظلم ڈھاتا ہے، پڑوسیوں کا، عزیز و اقارب کا حق مارتا ہے۔ نفرت، بغض و حسد، کینہ کپٹ کی حدوں کو پار کرجاتا ہے۔ عہدے و منصب اور اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، امانت میں خیانت کرجا تا ہے، امیر ہو کر غریبوں سے نفرت کر بیٹھتا ہے، پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اپنےہاتھ سے لقمہ اٹھا کے ہاتھ منہ تک نہیں پہنچا سکتااور موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ کوئی بیمار ہوکر مرتا ہے تو کوئی ایکسیڈنٹ میں۔ آج کل تو بے شمار لوگوں کی موتیں اچانک ہی ہوتی ہیں ۔ کورونا وائرس کے دوران توبہت بڑی تعداد میں مردو زَن ،بچے ، بوڑھے اور جوان دنیا سے رخصت ہوگئے ،قبرستان میں جنازے پر جنازہ ہوتا رہا اور شمسان گھاٹ پر لاشوں پر لاشیں نذرآتش ہوتی رہیں۔ لیکن پھر بھی انسان سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔حال ہی میں سیلاب نے تباہی مچادی ،بستی کی بستی غرقاب ہوگئی لیکن انسان ہے کہ راحت ملتے ہی سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ عموماً تو یہی دیکھا جاتا ہے کہ ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور آئی تو حضرت عمر فاروق اعظم ؓکے عدل و انصاف سے منہ موڑ کر ناانصافی اور ظلم و جبر کا راستہ اختیار کرکے فرعون کا انجام بھول گیا۔ دولت ہوئی تو حضرت عثمان غنیؓکی سخاوت اور ان کی خدمات سے منہ موڑ کر قارون کا انجام بھی بھول گیا۔ تھوڑا طاقتور بنا تو حضرت علیؓکی شجاعت سے منہ موڑ کر اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرنے لگا ۔ جب مزیدمزاج تبدیل ہواتو تعلیم کو بھی تجارت کا رنگ دیا، اسپتال تعمیر کرایا تو خدمت خلق کے جذبے سے منہ موڑ کر دولت کمانا اصل مقصد بنالیا۔ یہ دنیا ہے ہزاروں رنگ بدلتی ہے۔ کبھی گاڑی پر کشتی تو کبھی کشتی پر گاڑی ہوتی ہے، یہاں جو کوئی اپنا محاسبہ نہ کرسکا، وہ بالآخر ناکام رہا۔ جو کوئی بڑا حکمراں بن کر اپنے اشاروں پر دنیا کو نچاتا رہا ،کا بھی جب آخری دن آجاتا ہے تو اچانک زندگی کی چکاچوند روشنی اندھیرے میں بدل جاتی ہے۔ بستر پر لیٹ گیا ، سانسیں اُکھڑ رہی ہیں، پیاس کی شدت ہے ، سراہنے فرشتے بھی کھڑے ہیں ،کل تک ایک اشارے پر سیلوٹ مارا جاتا تھا، آج بدن پر مکھی بیٹھ گئی تو خود اپنے ہاتھوں سے ہانکنے کی بھی طاقت نہیں رہی، ہاتھ پاؤں سیدھا ہوگیا، آنکھیں کھلی کی کھلی اور ٹنگی رہ گئی ،ایک ہچکی آئی اور سارا بدن بے جان ہوگیا، روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ کل تک دولت مندوں، حکمرانوں، دانشوروں، فلاسفروں میں شمار ہوتا تھا اور آج مردوں میں شمار ہونے لگا۔ بڑے مہنگے مہنگے کپڑے پہنتا تھا، آج وہ سارے کپڑے اتر گئے وہی کپڑا پہنایا گیا جو ایک معمولی انسان کے مرنے پر پہنایا جاتا ہے۔ کوئی رشتہ دار یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ میرے پاس بہت لمبا چوڑا گھر ہے میں اپنے گھر کے ایک کمرے میں انہیں دفن کروں گا۔ کوئی رشتہ داریہ نہیں کہہ رہا ہے کہ میں ان کے ساتھ دفن ہوجائوںگا۔ ہر رشتہ دار اس کے تجہیز و تکفین کی تیاری کرتے اور جلد از جلد مٹی یا آگ کی نذر کرنے میں مصروف رہتا ہے۔یہی ہے ایک انسان کی حیثیت اور اوقات و حقیقت کہ ایک دن مرنا ہے، داعی اجل کو لبیک کہنا ہے۔ ذرا یاد کرو وہ منظر، جب ایک انسان موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے۔ پاؤں سے جان نکلنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ چلتے چلتے کمر اور سینے سے اوپر پہنچتا ہے، تمام رشتہ دار، دوست و احباب،خاندان کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں مگر کوئی بچانے والا نہیں۔ کیونکہ اللہ نے کسی کو موت سے بچانے کی طاقت و صلاحیت دی ہی نہیں ہے، یعنی رزق دینے والا اللہ ہے، زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے اور عزت و ذلت دینے پر بھی اللہ ہی قادر ہے۔ الغرض زندگی کو تو موت آنی ہی آنی ہے، ارے موت کو بھی موت آنی ہے۔ یعنی موت کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا جائے گا، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ ربّ العالمین کی ہے۔ اللہ باقی من کل فانی۔
[email protected]