اُٹھک بیٹھک افسانہ

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
وقارِ فُغاں،سفید خان سُوٹ پہنے،دراز قد کاٹھی والے،کلین شیو،بچپن ،لڑکپن اور جوانی کی منزلوں سے گزر کر اب بڑھاپے کی ڈراونی وادی میں داخل ہوچکے تھے۔وہ ضلع ترقیاتی بورڈ کے چیر مین رہ چکے تھے ۔عزت،شہرت اور پیسے کے ساتھ اُن کی زندگی کا سفر طے ہورہا تھا۔تقریباً پچاس برس تک وہ آٹھ ،کاٹھ اور تین سوساٹھ والی نماز ہی پڑھتے آرہے تھے ،لیکن اُس کے بعد اُنھیں کسی حد تک یہ احساس ہوگیا تھا کہ پانچ وقت کی نماز ہر عاقل، بالغ مرد وعورت پر فرض ہے ۔اُن کے چہرے کی جھریاں یہ عیاں کررہی تھیں کہ وہ زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھ چکے ہیں۔اُن کی حرص وہوس اور قلمی دبدبے نے دم توڑ دیا تھا۔اُنھیں دُنیاوی رشتوں کی ناپائیداری نے یہ احساس کرادیا تھا کہ سُکھ کے سب ساتھی دُکھ میں نہ کوئی!
75سال کی عمر کے وقارِ فُغاں آج جامع مسجدروح پرور میں ظہر نماز پڑھنے آئے تھے ۔اُن کے سامنے ایک طرف اٹھارہ برس کا خوب صورت نوجوان حافظ تصّورِ زماں بیٹھا تسبیح کے دانوں پر استغفار کا ورد کررہا تھا۔وقارِ فُغاں نے چارسُنتوں کی نیت باندھی ،کانوں کی لو تک یوں ہاتھ اُٹھائے کہ جیسے اُن کے کانوں پر مکھیاں بیٹھ گئی ہوں اور وہ اُنھیں اُڑا رہے ہوں۔اُنھوںنے ناف کے اوپر قیام کی صورت میں ہاتھ باندھے لیکن سجدے کی جگہ پہ نظریں مرکوز کرنے کی بجائے سیلینگ فین کی طرف دیکھنے لگے ۔اسی دوران اُنھیں دائیں کان میں خارش محسوس ہوئی تو وہ شہادت کی اُنگلی سے کان کو کھجلانے لگے۔اُس کے بعد رکوع میں گئے اور یکدم کھڑے ہوکر سجدے میں چلے گئے۔بغیر وقفے کے فوری طور پر دوسرا سجدہ کیا اور دوسری رکعت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔دوسری رکعت میں اُنھوں نے قیام کی حالت میں اپنی ناک کے دونوں نتھنوں میں باری باری اُنگلی ڈال کے ناک کو صاف کیا، اُس کے بعد اپنی قمیض کے کالر اور چھاتی پر دایاں ہاتھ پھیرنے لگے۔جب چوتھی رکعت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تو اُن کے موبائل فون پہ گانے کی یہ رِنگ ٹیون بجنے لگی ؎
اجی روٹھ کر اب کہاں جایئے گا
جہاں جایئے گا ہمیں پایئے گا
اُنھوں نے قیام کی حالت میں جیب سے موبائل فون نکالا،موبائل فون پہ کسی کا نام ونمبر پڑھنے لگے،پھر موبائل فون کو خاموش موڈ پہ رکھا۔لمحہ بھر میں وہ رکوع اور سجدے میں چلے گئے ۔قعدہ ٔ ثانی میں بیٹھے بیٹھے بیچ بیچ میں گردن پہ ہاتھ پھیرنے لگے ۔چار فرضوں کی ادائیگی میں وہ دوسری رکعت کے بعد قعدۂ اولیٰ میں بیٹھنا بھول گئے ،سیدھے کھڑے ہوگئے ۔غرضیکہ کُل بارہ منٹ میں وقارِ فُغاں نے ظہر کی نماز پڑھ ڈالی ۔وہ جونہی نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد سے باہر نکلنے لگے تو اتنے میں حافظ تصّور ِ زماں نے اُنھیں بڑے ادب کے ساتھ پکارا
’’داداجی!بزرگوارم!ٹھہر جایئے،میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ،کچھ اہم باتیں کہنا چاہتا ہوں ‘‘
یہ کہتے ہوئے حافظ تصّور ِ زماں اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور وقارِ فغاں کے قریب آکے اُن سے مصافحہ کیا، پھرکہنے لگے
’’داداجی!آیئے تھوڑے وقت کے لئے آپ میرے ساتھ نیچے بیٹھ جایئے ۔میں نماز سے متعلق کچھ اہم باتیں آپ کے گوش گزار کرناچاہتا ہوں کہ شاید آپ کے دل میں میری باتیںاُتر جائیں‘‘
وقارِ فُغاں حیرت واستعجاب میں ڈوبے ہونقوں کی طرح حافظ تصور ِ زماں کا چہرہ لمحہ بھر کے لئے تکتے رہ گئے،پھر وہ نیچے بیٹھنے کے بعد تصورِ زماں سے پوچھنے لگے
’’کہیے برخوردار، کیاکہنا چاہتے ہیں؟‘‘
حافظ تصور زماں نے کہا
’’میرے محترم ! بزرگوارم!آپ میرے دادا جی کی عمر کے ہیں ۔میں آپ کے سامنے بچّہ ہوں ۔اگر میں آپ کے سامنے نماز کے بارے میں کچھ سچّی اور اچھی باتیں بتاؤں تو آپ بُرا محسوس نہ کیجیے گا،کیونکہ ایک عالم کا کسی غلط کام یا بے اُصولی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا بہت بڑا گناہ بھی ہے اور جُرم بھی‘‘
وقارِ فُغاں کو یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے کسی نے اُن کا گریبان پکڑ لیا ہو اور وہ اُنھیں اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔اُن کے چہرے کا رنگ کچھ پھیکا پڑ گیا،کہنے لگے
’’برخوردار! میں تو کسی بھی بات پر کسی سے خفا نہیں ہوتا ہوں اور پھر آپ تو مجھے اچھی ہی باتیں بتانا چاہتے ہیں ۔کہیے کیا کہناچاہتے ہیں ؟‘‘
حافظ تصور ِ زماں نے کہا
’’محترم!جب آپ نماز پڑھ رہے تھے تو میں شروع سے آخر تک آپ کو دیکھتا رہا۔آپ نے سب سے پہلے جب تکبیرِ تحریمہ کے لئے ہاتھ اُٹھائے تو آپ کی ہتھیلیوں کا رُخ کعبے کی طرف نہیں تھا۔دوسری بات یہ کہ قیام کے دوران آپ کی نظریں سجدہ گاہ کی بجائے سیلینگ فین کی طرف اُٹھ رہی تھیں ۔قیام کے دوران ہی آپ کو دائیں کان میں خارش محسوس ہوئی تو آپ دائیں ہاتھ کی اُنگلی سے کان کو کھجلنے لگے۔تیسری بات یہ کہ رکوع اور سجدے میں اتنی عجلت سے جارہے تھے کہ لگتا تھا آپ کو پکڑنے کے لئے کوئی آپ کے پیچھے دوڑ رہا ہو۔چوتھی بات یہ کہ دوسری رکعت میں قیام کی حالت میں آپ اپنی ناک کے دونوں نتھنوں میں باری باری اُنگلی ڈال کے ناک صاف کررہے تھے ۔پانچویں بات یہ کہ ناک کی صفائی سے جب آپ فارغ ہوئے تو اُس کے بعد اپنی قمیض کے کالر اور چھاتی پر ہاتھ پھیرتے رہے۔چھٹی بات یہ کہ چوتھی رکعت کے لئے آپ جونہی اُٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کا موبائل فون بج اُٹھا۔آپ کی توجہ نماز سے ہٹ کے موبائل فون پر آگئی ۔آپ نے جیب سے موبائل فون نکالا ،اُسے غور سے دیکھا اور پھر جیب میں رکھ دیا۔ساتویں بات یہ کہ چار فرضوں کی ادائیگی کے وقت دوسری رکعت کے بعد قعدۂ اولیٰ میں بیٹھنا بھول گئے۔آٹھویں بات یہ کہ سلام پھیرنے کے بعد آپ نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے ،ابھی ایک منٹ بھی نہیں ہوا تھاکہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرے اور دُعاءسے فارغ ہوگئے۔میرے محترم! مجھے معاف کیجیے ،میں نے ایک چشم دید گواہ کے طور پر آپ کی نماز سے متعلق جتنی بھی باتیں بیان کیں کیا آپ ان کو تسلیم کرتے ہیں؟‘‘
وقارِ فُغاں نے چاہا کہ اگر زمین پھٹ جاتی تو میں اُس میں سما جاتا۔اُن کی پیشانی پر حافظ تصور ِ زماں کی باتیں سُن کر پسینے کے قطرے اُبھر آئے۔اُنھوںنے کہا
’’میرے عزیز!آپ نے مجھے جس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔وہ آپ کی نظر میں نماز ہے ہی نہیں ،لیکن میں تو کئی برسوں سے اسی طرح کی نمازیں پڑھتا
آرہا ہوں ‘‘
تصورِ زماں نے کہا
’’دادا!اللہ معاف کرے۔ایسی نماز اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں ہے ،بلکہ ایسی نماز تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے‘‘
وقارِ فُغاں نے پوچھا
’’عزیز من! آپ کے کہنے کے مطابق مجھے کس طرح کی نماز پڑھنی چاہیے تھی ؟جو میں نہیں پڑھ پایا ہوں‘‘
حافظ تصورِ زماں نے کہا
’’محترم المقام!سُنیے،جب ایک ایمان دار آدمی اچھی طرح نماز کے لئے وضو کرتا ہے ۔تمام فرائض ،سُنن ،واجبات ومستحبات کا پورا خیال رکھتا ہے تو اُس کا وضو بھی عبادت بن جاتا ہے اور جب وہ گھر یا مسجد میں نماز پڑھنے لگے تو نماز کی نیت کرنے کے ساتھ ہی اُسے یہ احساس ہونا چاہیے کہ میں خالق دوجہاں کے آگے کھڑا ہوں ،تکبیر تحریمہ کے لئے جونہی آپ ہاتھوں کو اُٹھائیںتو یہ خیال کریںکہ میں نے ساری دُنیا پیچھے چھوڑدی ۔اب دُنیا میری نہیں اور میں دُنیا کا نہیں۔یہ بھی احساس رکھیںکہ میری دائیں جانب جنت ہے،بائیں جانب جہنم ۔میرے آگے پل صراط ہے اورمیرے پیچھے ملک الموت میری روح قبض کرنے کے لئے تیار ہے ،یہ میری زندگی کی آخری نماز ہے۔جب سورۂ فاتحہ پڑھنے لگیںتو نظر سجدے کی جگہ پر رکھیں ایک ایک آیت آہستہ آہستہ پڑھیں،معنی پر غوروفکر کریں کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔سورت ملانے کے بعد جب رکوع میں جائیں تو کمر کو اس طرح سیدھی رکھیں کہ اگر آپ کی کمر پر پانی کا گلاس رکھیں تو وہ نہ گرے۔رکوع سے اُٹھنے کے بعد سیدھے کھڑے رہیں ،اُس کے بعد سجدے میں جائیں۔سجدے میں ناک پہ نظر رکھیں ، دل میںاللہ تعالیٰ کی عظمت اور خوف رکھیں ۔دوران نماز دُنیا ومافیہا کو بھول جائیں ،اپنی نماز میں خشوع وخضوع پیدا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی نماز سے خوش ہوں۔ وضوکی طرح نماز میں بھی فرائض ،سُنن ،واجبات ومستحبات ہوتے ہیں اُن کا خیال رکھیں۔جب دُعا مانگنے بیٹھیں تو ہاتھوں کو پیشانی اور آنکھوں کے درمیان رکھیں ،رورو کے دُعا مانگیں اور اگر یہ نہ ہوسکے تو رونے کی سی صورت بنائیں کیونکہ دُعا تمام عبادات کا مغز ہوتی ہے‘‘
وقارِفُغاں ،کو شرمندگی محسوس ہورہی تھی لیکن وہ بڑے دھیان سے حافظ تصور زماں کی باتیں سُن رہے تھے ۔تصور زماں نے اُن سے پوچھا
’’میرے محترم ! یہ بتایئے کہ آپ کو کتنی سورتیں زبانی یاد ہیں؟‘‘
وقارِ فُغاں نے جواب دیا
’’بس وہی دو سورتیں ،ایک سورۂ اخلاص اور دوسری سورۂ کوثر‘‘
تصور ِ زماں نے کہا
’’دادا! یہ دونوں سورتیں مجھے زبانی سُنائیں ،تاکہ میں یہ جان سکوں کہ آپ ان سورتوں کو کتنا صحیح پڑھتے ہیں‘‘
وقارِفُغاں نے اپنے ماتھے پہ اُبھرے پسینے کے قطرے صاف کیے، پھر پہلے سورۂ اخلاص پڑھی اور اُس کے بعد سورۂ کوثر۔
حافظ تصور ِ زماں نے دونوں سورتیں سُننے کے بعد ایک ٹھنڈی آہ بھری اور پھر وقارِفُغاں کو کہنے لگے
’’میرے محترم المقام! اللہ تعالیٰ پہ کامل بھروسہ رکھیں اور نُورانی قاعدہ خرید کر ہر روز میرے پاس آیا کریں تاکہ میں صدقۂ جاریہ کے طور پرنماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کا طریقہ اور اُصول تجویدکے مطابق آپ کو صحیح قرآن پڑھنا سکھاؤں‘‘
وقار فُغاں کے چہرے پہ کھوئی ہوئی رنگت لوٹ آئی ،کہنے لگے
’’میرے عزیز ! یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ مجھے ملے ۔میں آج ہی نُورانی قاعدہ خرید لوں گااور کل سے آپ کے پاس آجاؤں گا،پھر پوچھنے لگے
’’اچھا یہ بتایئے کہ وضو اور نماز میں یہ فرائض،سُنن،واجبات ومستحبات کیا ہوتے ہیں؟‘‘
حافظ تصور ِ زماں نے جواب دیا
’’داداجی! جب تک آپ عملی طور پر وضو اور نماز کے فرائض ،سُنن،واجبات ومستحبات کو نہیں سیکھیں گے تب تک آپ کو ان کی سمجھ نہیں آئے گی‘‘
وقارِ فغاں نے اب پچھتر سال کی عمر میں نُورانی قاعدہ خرید لیا ہے ۔اُن کے دل میں یہ تڑپ بھی پیدا ہوچکی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے وہ خشوع وخضوع والی نماز پڑھنا سیکھ لیں۔

���
سابق صدر شعبۂ اردوبابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
راجوری(جموں وکشمیر)