اُف یہ منگیرے لال کے حسین سپنے!

محکمہ بجلی ہمیشہ ہمیشہ غلط وجوہات کی بناء پر خبروں پر رہتا ہے ۔عمریں بیت گئیں ،جموںوکشمیر کے صارفین نے اس محکمہ کی جانب سے کوئی اچھی خبر نہیں سنی ہے ۔اب اگر کبھی محکمہ کسی اچھی خبر کی نوید بھی سناتا ہے تو وہ بھی مذاق ہی لگتا ہے۔ایسی ہی ایک نوید محکمہ کے تابع کمپنی کشمیر پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹیڈ نے اڑھائی برس قبل 2020کے اگست مہینہ میں سنائی تھی جب مذکورہ کارپوریشن کے اُس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کہاتھا کہ وہ سرینگر میں زیر زمین بجلی کی ترسیلی لائنیں بچھانے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاکہ شہر کے سبھی ہسپتالوں کو اس نظام کے ساتھ جوڑ کر بلا خلل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے ۔منیجنگ ڈائریکٹر موصوف کہتے تھے کہ اس ضمن میں ایکشن پلان بنایا جاچکا ہے اور عنقریب اس کام کو ای ٹینڈرنگ پر ڈال دیاجائے گا۔وہ کہتے تھے کہ ایک دفعہ زیر زمین ترسیلی لائنوں کی بچھائی کا عمل مکمل ہوجائے تو شہر باسیوں کو برف وباراں اور بادوباراں کی وجہ سے بجلی کی سپلائی سے محروم نہیں ہونا پڑے گا۔بات پھر وہیں پہنچ جاتی ہے ،کہنے کو تو یہ اچھی باتیں لگتی ہیں لیکن بجلی محکمہ کی نااہلی کی اتنی طویل تاریخ ہے کہ اس اچھی خبر پر بھی کوئی بھروسہ کرنے کو تیا ر نہیں تھا۔ویسے بھروسہ کرتے بھی توکیسے۔اس محکمہ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے ۔جو محکمہ آج تک بلنگ کا نظام ٹھیک نہ کرسکا ،اُس سے آپ کیسے توقع کرسکتے ہیںکہ وہ آپ کو زیر زمین کیبل کے ذریعے بجلی فراہم کرتا۔منیجنگ ڈائریکٹر موصوف محکمہ بجلی میں نئے تھے اور ویسے بھی ابھی نئے نئے ایڈمنسٹریشن میں آئے تھے۔اُنہیں ابھی جموںوکشمیر کی انتظامیہ خاص کر محکمہ بجلی کا اتنا تجربہ حاصل نہیں تھا ۔چونکہ آج کل محکمہ بجلی زیادہ تر اسی محکمہ کے فیڈنگ سٹاف و عہدیداروں نے چلایا ہے تو دیگر محکموں کے عہدیداروں کو اس کااُتنا تجربہ حاصل نہیں ہے ۔یہی حال ایم ڈی صاحب کا بھی تھا۔اُن کی نیت پر ہرگز شک نہیںکیاجاسکتا تھااور اُن کا پھرتیلا پن کسی سے پوشیدہ نہیں تھا جبکہ عوام دوستی میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے لیکن ایم ڈی صاحب کو شاید نہیں معلوم تھا کہ جس محکمہ کو وہ ہائی ٹیک کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ،وہ سر تا پا تباہ حال ہے ۔زمینی سطح پر بجلی لائن مین سے لیکر چیف انجینئر وں کے دفاتر تک کوئی کام ٖڈھنگ سے نہیںہورہا ہے ۔اربوںاور کھربوں روپے کی فیس وصولی نہیں جارہی ہے،وصولیں گے بھی کیسے ،بلیں ہی ناقص ہیں ۔صارفین کو بجلی فراہم ہوتی ہی نہیںلیکن ماہوار بلیں مل جاتی ہیں۔ایم ڈی موصوف شاید یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اے آر ڈی پی آر سے لیکر دین دھیال اپدھیائے سکیم تک درجنوں سکیمیں آئی اور گئیں ،اربوں روپے آئے اور گئے لیکن بجلی نظام کی حالت ویسی کی ویسی ہی ہے۔دین دھیال اپدھیائے سکیم کے تحت چھوٹے اور سمارٹ ٹرانسفارمروںکی تنصیب کا خواب تاحال شرمندہ تعبیر ہونا باقی ہے ۔آج بھی بجلی کی ترسیلی لائنیں کئی مقامات پر بوسیدہ کھمبوں اور درختوں سے لٹکی ہوئی ہیں۔اوراب شاید سمارٹ بجلی میٹروں کی تنصیب کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ ترک ہی کردیاگیا ہے ۔یہ منصوبہ بھی کب کا دردست لیاگیا تھا،اس کے تحت پورے جموںوکشمیر میں سمارٹ پری پیڈ میٹر نصب کرنے تھے اور پہلے مرحلہ پر سرینگر اور جموں شہروں و قصبہ جات میں ان کی تنصیب یقینی بنانا تھی لیکن دور دور تک ان میٹروں کی تنصیب نظر نہیں آرہی ہے ۔اس مایوس کن ماحول میں منیجنگ ڈائریکٹر اہل شہر کو زیر زمین ترسیلی کیبل بچھائے جانے کی نوید سنارہے تھے تو اس پر کون بھروسہ کرتا۔منیجنگ ڈائریکٹرموصوف اب چونکہ محکمہ بجلی سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن زیر زمین کیبلنگ نہیں ہوپائی بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ محکمہ بجلی میں کچھ بھی نہیں بدلا تو بیجا نہ ہوگا۔اب چونکہ نئے منیجنگ ڈائریکٹر کشمیر پاور ڈسٹری بیوشن کارپوریشن لمیٹیڈ کو دیکھ رہے ہیں تو اُن سے یہی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اس کارپوریشن کا پہلے پوسٹ مارٹم کریں ۔بلکہ پہلی فرصت میں ملازمین کے جائز مطالبات حل کرنے کی سعی کروائیں۔جس کارپوریشن کے وہ منیجنگ ڈائریکٹر ہیں،اُس کارپوریشن کے قیام پر ہی اُن کے ماتحت ملازمین معترض ہیں اور وہ بجلی شعبہ کی نجکاری کا فیصلہ واپس لینے کے حق میں پابہ شعلہ ہیں۔اس لئے بہتر رہے گا کہ شہر باسیوں کو منگیرے لال کے حسین سپنے دکھانے کی بجائے پہلے اپنے گھر کو درست کیاجائے ،گھر سے مراد کارپوریشن سے ہے ۔کارپوریشن کے اندر کے جھمیلے حل ہوںتو شاید کل کو ماتحت عملہ زیر زمین کیبل بچھانے کے وقاری پروجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کی کوشش کرے گا لیکن اگر اندرونی معاملات جوں کے توں رہیں تو اس منصوبہ ،جو تاحال ناکامی کا شکار ہی ہے ،کوآگے چل کربھی ناکامی کے ساحل سے ٹکرانا طے ہے اور اُس وقت منیجنگ ڈائریکٹر صاحب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔اس لئے اچھا رہے گا کہ پہلے ملازمین کے تنازعات حل کئے جائیں،اس بات کا فیصلہ کیاجائے کہ اس کو کارپوریشن ہی رہنا ہے یا پھر روایتی محکمہ ہی رہے گا۔اگر یہ مرحلہ حل ہوتا ہے تو اس کے بعد زیر التوا پروجیکٹ مکمل کروائیں اور جب وہ مکمل ہوں تو نئے پروجیکٹوں کی بات کریں کیوںکہ اُس وقت عوام کا متزلزل اعتماد بحال ہوا ہوگا اور وہ اُس پروجیکٹ میں تعاون بھی پیش کرینگے ۔جب تک یہ اعلانات دور کی کوڑیاں لانے کے مترادف ہی قرار دئے جاسکتے ہیں جن سے زمینی صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی ہے۔