اُستاد۔انسانیت کا بے لوث مُحسن جہاں اُس کی قدر نہیں وہاں جہالت ہے

میر امتیاز آفریں
ایک عظیم قوم مال و زر سے نہیں بلکہ بامقصد اور بامراد افراد سے تشکیل پاتی ہے اور ان افراد کی تعلیم و تربیت اساتذہ کرتے ہیں۔ لہٰذا حقیقت میں کسی قوم کی تقدیر ہمیشہ اس کے اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ استاد صرف علم کا سرچشمہ ہی نہیں بلکہ ایک سرپرست، دوست اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ کیا ہم افلاطون کے بغیر ارسطو، اینی سلویون کے بغیر ہیلن کیلر اور شمس تبریزؒ کے بغیر رومیؒ کا تصور کر سکتے ہیں؟ بالکل نہیں! استاد تہذیب کی بنیاد اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا محسن ہوتا ہے۔ استاد ایک معمار کی طرح ہوتا ہے جو معاشرے کی ضروریات کے مطابق انسانی ذہنوں کو تیار کرتا ہے اور انہیں ایک بہترین شکل دے دیتا ہے۔ ایک استاد کے لیے، مختلف روایات اور ثقافتوں میں بہت سے نام استعمال کیے گئے ہیں جیسے ‘گرو، ‘مرشد، ‘رہبر وغیرہ جو ان بے شمار خوبیوں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کا ہونا ایک استاد میں ناگزیر ہے۔
  ‘گرو کا مطلب ہے روحانی استاد، ‘مرشد کا مطلب ہے ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے والا اور ‘رہبر کا مطلب ہے صحیح راستہ دکھانے والا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مثالی استاد وہ ہے جو فرد کی جسمانی، فکری اور روحانی جہتوں کی نشوونما کے لیے کام کرے۔ ایک مثالی استاد وہ ہوتا ہے جو پوری لگن سے چھپی ہوئی انسانی صلاحیتوں کو نکھارتا ہے اور اپنے شاگردوں میں پنہاں خوبیوں کو مرتبہ کمال تک پہنچا دیتا ہے۔ وہ خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے اور انسان کو خود شناسی کے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔ اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو  شاگردوں کو اپنے خیالات کا قیدی نہیں بناتا بلکہ انہیں پروں سے نوازتا ہے تاکہ وہ علم کے آسمانوں میں آزادی کے ساتھ پرواز کر سکیں۔ ایک مثالی استاد اپنے طالب علموں کے ذہنی افق کو وسیع کر کے ان کے ذہن و قلب کو روشن کردیتا ہے۔
ایک انسانی وجود کا استاد بننا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ سعادت کی بات ہے۔ استاد کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ماں باپ چاہے وہ کتنے ہی اعلیٰ منصب پر کیوں نہ ہوں ، اپنی اولاد کو ایک استاد کو ہی سونپتے ہیں۔ یہ استاد کی عظمت ہی ہے کہ امریکہ کا عظیم ترین صدر ابراہم لنکن اپنے بیٹے کے استاد کو ایک خط لکھتا ہے اور اس میں والد ہونے کی حیثیت سے استاد سے وابستہ توقعات کا تذکرہ کرتا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان کے سابق صدر، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے ایک بار کہا:’’تدریس ایک بہت ہی اعلیٰ پیشہ ہے جو ایک فرد کے کردار، صلاحیتوں اور مستقبل کی تشکیل کرتا ہے، اگر لوگ مجھے ایک اچھے استاد کے طور پر یاد رکھیں گے تو یہ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز ہوگا۔‘‘
استاد ہونا ایک پیغمبرانہ عمل ہے۔  خدا کے تمام پیغمبر بنی نوع انسانی کے رہنما اور استاد تھے اور انہوں نے لوگوں کو علم و آگہی کی طرف رہنمائی کی۔ اللہ کے آخری پیغمبر محمد عربی  صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم نے اپنے بارے میں بیان فرمایا:’’ انما بعثت معلما‘‘ یعنی بلاشبہ مجھے معلم (استاد) بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہوگا کہ پیغمبر اکرمؐ نے جب خود کو متعارف کیا تو ایک ‘معلم کی حیثیت سے، لہٰذا کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو خلوص نیت سے کسی نہ کسی جگہ پر بطور استاد اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اساتذہ علم اور انسانی اقدار کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرتے ہیں اور ایک قوم کے لیے مشعل راہ کا کام کرتے ہیں۔ علم کے ہر شعبے میں داخل ہونے اور آگے بڑھنے کے لیے ایک استاد کی خدمات ناگزیر ہیں۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی جب انٹرنیٹ نے حصول علم کے طریقوں کو تبدیل کر دیا ہے، ایک استاد کا پھر بھی کوئی متبادل نہیں ہے۔ کتابیں اور انٹرنیٹ معلومات کا ذریعہ تو ہوسکتے ہیں لیکن یہ ان اقدار کو تخلیق نہیں کر سکتے جو کسی فرد کی ہمہ گیر ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اساتذہ کبھی نہیں مرتے کیونکہ وہ آنے والی نسلوں کو علوم و فنون منتقل کر کے خود کو امر بنا لیتے ہیں۔ تاہم، ایک استاد کا کام بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مادہ پرستی کے رجحانات جو کہ جدید انسان میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، نے اساتذہ کو بھی متاثر کیا ہے اور اسی وجہ سے معیاری درس و تدریس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ استاد کو کھوئی ہوئی عظمت اور وقار دوبارہ حاصل کرنے کے لئے کافی لگن کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک استاد کو پہلے تو اپنے مقام سے آگاہ ہونا پڑے گا اور اس کے بعد خود کو جدید تدریسی مہارتوں سے آراستہ کرنا ہوگا۔
آج کل ہمارے اساتذہ زبردست ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، انتھک محنت و مشقت کے بعد بھی سماج انہیں وہ عزت و احترام نہیں دیتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ تدریسی پالیسیوں اور اسکولی انتظامیہ میں اساتذہ کے اختیارات کو کم کر دیا گیا ہے ۔ اخلاقی بحران کے اس دور میں اساتذہ کے لیے طلبہ کے باغیانہ اور حیا سوز رویوں کے ساتھ نمٹنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ عام طور پر اساتذہ کی معمولی غلطیوں کو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اچھالا جاتا ہے، ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں اور اکثر مایوس ہو کر اپنے پیشے کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے۔ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جس معاشرے میں استاد کا احترام نہ کیا جائے اس معاشرے پر جہالت راج کرتی ہے۔
 آج اگر اہل مغرب زندگی کے ہر شعبے میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام پہچانتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کے مقام کو سمجھ کر معاشرے کو اعلیٰ انسانی اقدار پر استوار کیا جائے کیونکہ اسی میں ہماری فلاح مضمر ہے۔