اُردو تنقید ۔مشرقی تصورات و نظریات کے تناظر میں فہم وفراست

سید منصور احمد بخاری

اردو تنقید کے مشرقی تصورات کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصّہ قدیم شعراکے اردو کے تذکروں میں اور دوسرا حصّہ اردو تنقید کا قدیم سے جدید کی طرف مائل ہونا ہے جو مولانا الطاف حسین حالیؔ کی ’مقدمہ شعروشاعری‘ کی اشاعت سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے تنقید کے بنیادی اصول و ضوابط قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور شاعری کے لیے اصول پیش کیے ہیں۔ اردو تنقید کے قدیم دور میں تنقیدی نظریات میںاصول و ضوابط ،معانی و مفاہیم، نظم وضبط اور تنقیدی تصورات میں عدم استحکام پایا جاتا ہے ۔ابتدائی تنقید کے دور میں شاعری کے بنیادی مسائل پر نقادوں نے اپنے تصّورات کو پیش کیا ہے لیکن ان کے نظریات و تصورات میں قدیم مشرقی معیارات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس دور میںشاعروں نے اردو کے تذکروں میں اپنے تنقیدی شعور کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس دور کے شاعر اور نقاد عربی اور فارسی کی تنقیدی نظریات سے بہت متاثر تھے۔ اردو شاعری پر فارسی اور عربی دونوں زبانوں نے اپنے اثرات کو مرتب کیا ہے اور ابتدائی دور کے شعراء کی شاعری میں فارسیت کا زیادہ اثر پایا جاتا ہے جن میںامیر خسرو ؔ،مصحفیؔ اور غالبؔ کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کی ابتدائی شاعری پر فارسیت کا غلبہ زیادہ رہاہے۔اردو تنقید ابتداء میں تذکروں کی شکل میںنمودار ہوتی ہے بعد میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں الطاف حسین حالیؔ تنقید پر ایک مقدمہ شعروشاعری ۱۸۹۳ء میںمرتب کرتے ہیں۔ حالیؔ کی یہ کتاب اردو تنقید کی نوعیت سے ایک عظیم کاوش ثابت ہوتی ہے جس میں حالی نے نئے نئے انداز اور طریقۂ کار سے اردو تنقید کے نقادوں کو متعارف کرایا ہے۔ حالیؔ سے پہلے اردو ادب میں تنقیدی لحاظ سے اس قدر بلند پایہ کی کوئی کتاب نہیں ملتی ہے جس پر تنقیدی بنیاد کو کھڑا کیا جاسکے چوں کہ حالیؔ نے مغربی تنقیدی تصورات سے اثر قبول کیا اور مغربی تنقید کے اثرات کو اردو تنقید میں شامل کیا ہے۔ انھوں نے مغربی تنقیدی اثرات کو ہی قبول نہیں کیا بلکہ مشرقی یعنی عربی اور فارسی کی تنقیدی روایت کو بھی تقویت بخشی۔ حالی نے مغربی اثرپذیری کو قبول کرتے ہوئے عربی اور فارسی کی تنقیدی روایت کو مزید فوقیت دی اور اردو ادب کی تاریخ میں تنقیدی لحاظ سے ایک عظیم الشان کام کو سر انجام دیاہے۔ اردو تنقید کے مشرقی تصورات کی وضاحت کرنے کے لیے مشرقی ناقدین کے تصورات کو الگ الگ نوعیت سے پیش کیا گیا ہے۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ اردو ادب کے ایک قدرآور شخصیت ہیںوہ بیک وقت شاعر، ادیب ،سوانح نگار اور نقاد ہیں انہوں نے اردو کے مختلف شعبوں میں اپنی چھاپ چھوڑی اور اردو ادب کے لیے بہت سے کام سرانجام دیے ہیں اور ان کارناموں سے اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا۔ حالی نے اردو ادب میں پرانی شاعری کے طرز کو نئے اسلوبِ شعر کی طرف راغب کیا اور اردو شاعری میں نئے رجحانات کو متعارف کروایا۔ انہوں نے اردو ادب میں شاعری کو جدید طرزِ عمل اور جدید انداز فکر میںشعر کہنے کی کوشش کروائی اور اردو ادب کے دوسرے شعراء کو جدید فکر اور جدید آہنگ میں شاعری کرنے کی طرف متوجہ کیا چوں کہ میرا موضوع حالی کی تنقیدی کاوشوں کو بروئے کار لانا ہے اور تنقید کے مشرقی تصورات کو اجاگر کرنا ہے۔ اردو تنقید پر حالی کی بلند پایہ کتاب’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ ہی ہے لیکن ان کی دوسری کتابوں میں بھی کہیں کہیں تنقیدی تصورات نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے کہ حیات جاوید،یادگارغالب اور حیات سعدی جو ان کی سوانح عمری کی تصانیف ہیں۔
پروفیسر ممتاز حسین حالی کے بدلتے ہوئے رجحان کے ضمن میںیوں رقم طراز ہیں:
’’خواجہ الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ء میںپیدا ہوئے لیکن صحیح معنوں میں اپنے سن شعور کو ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں کے بعد پہنچے۔ حالی نے اس بغاوت کے معرکوں میں مغرب کی خودبخود چلنے والی بندوق اور دخانی کشتیوں کو مشرق کی توڑے دار بندوق اور بادبانی کشتیوں سے جنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ ایشیا کی مطلق العنان شاہیت کے غیر منظم جاں نثاروں کو مغرب کی آہنی شاہیت کے آزاد انسانوں سے دست و گریباں پایا۔ حالی نے مفلوک الحال کسانوں کی تباہ حال دست کاروں اور بے روز گار شرفاء کو اپنے عیوب سے بے خبر اپنی تباہی نہ بربادی کے لیے مغرب کا شکوہ منج دیکھا۔‘‘
مقدمہ شعروشاعری مولانا حالی کاتنقیدی شاہکار ہے جسے دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔حصّہ اوّل میںشعر کی تعریف ،اس کی افادیت و اہمیت اور الفاظ و معانی کی اہمیت کو موضوع تشریح بنایا گیا ہے اور شاعری کے بنیادی اصول کو ترتیب دیا گیا ہے۔ تنقیدی نظریات میں عربی کے معیار تنقید اور مغربی تنقید کے تصورات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔حصّہ دوم میں اردو کی اہم اصناف کی تعریف و اہمیت کے معیار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
حالی نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ میں شعری اصناف کے بارے میں جو نظریات و تصورات پیش کیے ہیں ان میں عرب نظریاتی اور مغربی مفکرین کے افکار دونوں سے استفادہ کیا گیا ہے اور پھر انھوں نے شعر وسخن کے لیے اصول و ضوابط قائم کیے ہیں۔حالی مشرقی تصورات کی نسبت مغربی نظریات و خیالات سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں کیوں کہ مغربی تنقید نگاروں نے شعروادب میں سماجی معنویت پر زیادہ زور دیا ہے اور انہوں نے معاشرتی پہلوئوں کو زیادہ اجاگر کیا ہے وہ شعر کی ظاہری خوبصورتی کے بجائے اس کے معانی و مفاہیم پر زور دیتے ہوئے مخصوص اصولوں کو قائم کرتے ہیں۔ انھوں نے شعروشاعری کو بناوٹ اور مرصع سازی سے آزاد کر کے حقیقت نگاری کے پہلوئوںکو پرکھنے پر ترجیح دی ہے۔ حالی غزل کی ہیٔت کو پسند کرتے ہیں کیوں کہ اس صنف ادب میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بیان کیا جاسکتا ہے وہ اس کے معانی اور اصلاحی صورتوں کو پیش کرنے کے قائل ہیں۔ وہ شعروشاعری میں اخلاق ،اصلیت اور حقیقت کو روشناس کراتے ہیں۔ وہ مقدمہ شعروشاعری میں غزل کی اصلیت،جوش اور سادگی کو دیکھنے کے قائل ہیں اور انھوں نے قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ میںبھی اسی اصول کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالی اردو کے پہلے نقاد ہیںجنھوں نے اردو میںتنقیدی شعور پیدا کیا ہے۔ انھوں نے اردو تنقید میں معاننی اور مفاہیم کو سمجھنے اور پرکھنے کا رواج قائم کیا ان سے پہلے صرف زبان و بیان، قافیہ بندی اور قواعد کو ہی دیکھا جاتا تھا کہ درست ہیںکہ نہیں حالی کی تنقیدی کا وشوں سے اردو تنقید میںایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے انھوں نے ادب کے ذریعے اخلاقی سیاسی ،معاشی و سماجی جیسے مختلف پہلوئوں پر زور دیا اور اسطرح ترقی پسند تنقید اور جدید تنقید کی ابتداء ان کے یہاں بھی نظر آتی ہیں۔
اردو تنقید میںحالی مشرقی تصورات کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں اور ان سے بھی اپنے تنقیدی نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ مشرقی تصورات میںحالی عربی اور فارسی دونوں زبانوں کے ادب سے اپنی تنقیدی افکار کو اجاگر کرتے ہیں اور اردو تنقید کو ایک نئے انداز سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فارسی میںخاقانی، فردوسی ،حافظ اور نظیری کے اشعار سے مثالیں لیتے ہیں اور اپنے تنقیدی نظریات کو مزید ترویج دیتے ہیں۔ حالی جہاں مشرقی شعراء اور ادیبوں کے افکار سے متاثر نظر آتے ہیںاسکی نسبت وہ مغربی شعراء ملٹن اور لارڈ میکالے سے بھی زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔
حالی نے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ میںشاعر اوراسکی خصوصیات کی وضاحت کی ہے کہ شاعر میں تخیل ،کائنات کا مطالعہ اور تفحص الفاظ کا موجود ہونا ضروری ہے۔ تخیل کے بارے میں حالی نے مغربی اور مشرقی عہد عباسی کے نقادوں کے خیالات اور تصورات سے متاثر ہوتے ہیں۔ حالی کے نزدیک شاعر میں تخیل اور تفحص الفاظ کا بہترین استعمال اسے بلند معیار کی چوٹیوں پر لے جائے گا اگر خیال اور الفاظ میں ہم آہنگی نہیں ہے تو وہ شاعری بیکار اور غیر معنی ہوگی۔ حالی آمد کے بجائے آورد کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ شعر میںدو چیزیں ہوتی ہیں خیال اور الفاظ ہوسکتا ہے کہ خیال شاعر کے ذہن میںجلدی آجائے مگر اس کے لیے مناسب الفاظ کو ترتیب دینا ایک ضروری امر ہے۔ حالی مشرقی عرب نقادین سے بہت متاثر تھے اور ابن رشیق کے تنقیدی خیالات سے بھی متاثر تھے۔ عرب ناقدین بھی آمد کے بجائے آورد کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور غورو خوض کو اہمیت دیتے ایشیا کی مطلق العنان شاہیت کے غیر منظم جاں نثاروں کو مغرب کی آہنی شاہیت کے آزاد انسانوں سے دست و گریباں پایا۔ حالی نے مفلوک الحال کسانوں کی تباہ حال دست کاروں اور بے روز گار شرفاء کو اپنے عیوب سے بے خبر اپنی تباہی نہ بربادی کے لیے مغرب کا شکوہ منج دیکھا۔‘‘
مقدمہ شعروشاعری مولانا حالی کاتنقیدی شاہکار ہے جسے دو حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔حصّہ اوّل میںشعر کی تعریف ،اس کی افادیت و اہمیت اور الفاظ و معانی کی اہمیت کو موضوع تشریح بنایا گیا ہے اور شاعری کے بنیادی اصول کو ترتیب دیا گیا ہے۔ تنقیدی نظریات میں عربی کے معیار تنقید اور مغربی تنقید کے تصورات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔حصّہ دوم میں اردو کی اہم اصناف کی تعریف و اہمیت کے معیار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
حالی نے ’مقدمہ شعروشاعری‘ میں شعری اصناف کے بارے میں جو نظریات و تصورات پیش کیے ہیں ان میں عرب نظریاتی اور مغربی مفکرین کے افکار دونوں سے استفادہ کیا گیا ہے اور پھر انھوں نے شعر وسخن کے لیے اصول و ضوابط قائم کیے ہیں۔حالی مشرقی تصورات کی نسبت مغربی نظریات و خیالات سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں کیوں کہ مغربی تنقید نگاروں نے شعروادب میں سماجی معنویت پر زیادہ زور دیا ہے اور انہوں نے معاشرتی پہلوئوں کو زیادہ اجاگر کیا ہے وہ شعر کی ظاہری خوبصورتی کے بجائے اس کے معانی و مفاہیم پر زور دیتے ہوئے مخصوص اصولوں کو قائم کرتے ہیں۔ انھوں نے شعروشاعری کو بناوٹ اور مرصع سازی سے آزاد کر کے حقیقت نگاری کے پہلوئوںکو پرکھنے پر ترجیح دی ہے۔ حالی غزل کی ہیٔت کو پسند کرتے ہیں کیوں کہ اس صنف ادب میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بیان کیا جاسکتا ہے وہ اس کے معانی اور اصلاحی صورتوں کو پیش کرنے کے قائل ہیں۔ وہ شعروشاعری میں اخلاق ،اصلیت اور حقیقت کو روشناس کراتے ہیں۔ وہ مقدمہ شعروشاعری میں غزل کی اصلیت،جوش اور سادگی کو دیکھنے کے قائل ہیں اور انھوں نے قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ میںبھی اسی اصول کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالی اردو کے پہلے نقاد ہیںجنھوں نے اردو میںتنقیدی شعور پیدا کیا ہے۔ انھوں نے اردو تنقید میں معاننی اور مفاہیم کو سمجھنے اور پرکھنے کا رواج قائم کیا ان سے پہلے صرف زبان و بیان، قافیہ بندی اور قواعد کو ہی دیکھا جاتا تھا کہ درست ہیںکہ نہیں حالی کی تنقیدی کا وشوں سے اردو تنقید میںایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے انھوں نے ادب کے ذریعے اخلاقی سیاسی ،معاشی و سماجی جیسے مختلف پہلوئوں پر زور دیا اور اسطرح ترقی پسند تنقید اور جدید تنقید کی ابتداء ان کے یہاں بھی نظر آتی ہیں۔
اردو تنقید میںحالی مشرقی تصورات کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہیں اور ان سے بھی اپنے تنقیدی نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔ مشرقی تصورات میںحالی عربی اور فارسی دونوں زبانوں کے ادب سے اپنی تنقیدی افکار کو اجاگر کرتے ہیں اور اردو تنقید کو ایک نئے انداز سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فارسی میںخاقانی، فردوسی ،حافظ اور نظیری کے اشعار سے مثالیں لیتے ہیں اور اپنے تنقیدی نظریات کو مزید ترویج دیتے ہیں۔ حالی جہاں مشرقی شعراء اور ادیبوں کے افکار سے متاثر نظر آتے ہیںاسکی نسبت وہ مغربی شعراء ملٹن اور لارڈ میکالے سے بھی زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔۔۔۔(جاری)۔۔۔۔
(رابطہ ۔9541837560)
[email protected]