اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر تعارف

عمر کوتی ندوی

اردو صحافت کے اولین معماروں میں مولوی محمد باقر کا نام سرفہرست آتا ہے۔ انہوں نے 1863ء میں اردو اخبار نکالا۔ یہ کوئی کاروباری اخبار نہ تھا، اس کا ایک مشن تھا اور اپنے لئے اس نے ایک معیار متعین کیاتھا۔ اس کا آغاز ’اخبار دہلی‘ کے نام سے ہوا پھر کچھ عرصہ بعد یہ ’دہلی اردو اخبار‘ ہو گیا اورآخر کی چند اشاعتوں کے لئے ’ اخبارالظفر‘ کا نام پاکر ’شہادت‘ کے بلند تر مقام سے سرفراز ہوا اور تاریخ کے سنہرے اوراق میں اپنے لئے خاص جگہ بنا لی۔

 

 

’اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر‘ کے نام سے مرتب کردہ کتاب اس عظیم صحافی کی حیات وخدمات پر مشتمل ہے جس نے 16ستمبر 1857ء میں جام شہادت نوش فرمایا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انہیں بغیر مقدمہ چلائے راست طور پر گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ گرفتاری کے دوران زندگی کے آخری لمحات میں ان کے بیٹے محمد حسین آزاد بھیس بدل کر آخری دیدار کو پہنچے، دور سے آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں نے باتیں کیں ، آنسو بہائے اور ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ اس واقعہ اور آج2023ء کے درمیان 166برس کا فاصلہ ہے پر آج بھی خوں چکاںواقعات کی داستان سنتے ہی دل کانپ جاتا ہے لیکن اس وقت کے لوگوں نے اس کا سامنا کیا ہے۔ مولوی محمد باقر نے1852ء میں دہلی کالج کا رخ کیا اور پھر یہیں درس وتدریس سے وابستگی اختیار کرلی، رئیس المدرسین کے منصب پر فائز ہوئے اور 1834ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد کلکٹر دہلی مسٹر مٹکاف کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے محکمہ کلکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔ ایک مدت تک تحصیلداری کی اور پھر محکمہ بندوبست میں سپرنٹنڈنٹ مقرر ہو گئے۔لیکن جلد ہی مولوی باقرنے دنیا کی آزائشوں سے ناطہ توڑ کر اپنا ایک مشن اور بلند معیار متعین کرلیا۔

 

 

زیر نظر کتاب180صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں مولوی محمد باقر کی ذات وحیات سے متعلق پہلوؤں کو بڑی محنت کے ساتھ جمع کیا گیا اور فنی مہارت کے ساتھ ایک لڑی میں پرویا گیا ہے۔انہوں نے جو دور پایا تھا وہ انتشار، ابتلاء وآزمائش اور جدوجہد کا دور تھا۔ کتاب میں اس دور کے عکس کو پیش کیا گیا ہے اور دکھایا گیا ہے کہ دم آخر میں ہاتھ پاؤں مارتی حکومت کی کوششوں کے درمیان شہید صحافی نے اپنی زندگی کو ایک مقصد دیا اور اس کے لئے ہرممکن کوشش میں اپنا حصہ ڈالا۔ انہوں نے اردو صحافت کو صداقت ودیانت، حق گوئی وبیباکی، فرض شناسی ، ایثار وقربانی کے بلند ترمقام پر فائزکیا۔ انہوں نے سہاروں پر تکیہ نہ کرکے اپنا ذاتی پریس ڈالا، دہلی کالج کے لئے لائی گئی پریس مشینوں کو خریدا ، اس کے لئے جگہ خریدی اور پھر اپنے مشن میں لگ گئے۔

 

 

کتاب میں مولوی باقر کے حالات میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ان کاسلسلہ نسب معروف صحابی حضرت سلمان فارسی سے ملتا ہے۔ ان کا تعلق ایسے علمی خانوادے سے تھاجہاں فکر وذہن کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ان کے’خاندان کا ہر فرداپنی قابلیت کی بنا پر اخونداور خلیفہ کہلاتا تھا اور علماء میں مجتہد کا درجہ رکھتا تھا‘۔ وہ خود بھی عالم دین ،مجتہد اور استادتھے۔ انہو ں نے ایک بڑی زمین خرید کر اس میں امام باڑہ بنوایا۔ ’آپ(مولوی محمد باقر)اس امام باڑہ میں مجالس کرتے تھے…جس میں مجمع کثیر ہوتا تھا…پانچ چھ گھنٹہ تک وعظ فرماتے تھے۔ آپ کا بیان جادو بھرا ہوتا تھا…اسی امام باڑے کے نزدیک ایک مسجد ہے جو مولانا باقر ہی نے تعمیر کرائی تھی‘۔ مولوی باقر اپنے گھر اور بچوں کی تعلیم وتربیت پربھی خاص توجہ دیتے تھے۔ رات کا کھانا امام باڑے کے دالان میں سب لوگ ایک ساتھ کھاتے تھے۔ اسی کی دین ہے کہ علمی دنیا کو ان کے بیٹے کی صورت میں ایک نامور شخصیت ملی۔ اس تعلق سے کتاب میں درج ہے کہ ’ان کے تعلق اور تربیت کا ایک نمونہ ان کے ہونہار فرزند محمد حسین آزاد ہیں‘۔ بچیوں کی تعلیم وتربیت اور دیگر ضروری امور سے واقفیت ومہارت کے لئے’استانی جی‘ اور’مغلانی بی‘ کی باقاعدہ خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ابتلاء وآزمائش کے اس دور میں خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کی طرف سے غفلت پیدا ہوگئی تھی ، کہیں تعلیم کی طرف توجہ تھی بھی تو پڑھنا سکھاتے تھے لکھنا نہیں۔ لیکن مولوی باقر نے اس رسم کو توڑا اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ ان کی ہم سن لڑکیوں کو بھی لکھناپڑھنا دونوں سکھایااور معیاری تعلیم دلائی۔
اس کتاب میں مولوی باقر کی فکری وذہنی وسعت کو بہت نمایاں طور پیش کیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ ’مولوی اور مجتہد ہونے کے باوجود مولوی محمد باقر تنگ نظر ہرگز نہیں تھے۔ دوسرے مذاہب کے بارے میں جاننا اور اپنے لواحقین کو واقف کرانا فرض اولین سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے(محمد حسین آزاد) کودلی کالج میں سنی دینیات کی کلاس میں بٹھایاتھا‘۔ زیر نظرکتاب میں ان کی شخصیت کے اس پہلو کو بھی بیان کیا گیاہے کہ ’مولانا باقر شیعہ تھے لیکن سنی علماء بھی ان کی عزت کرتے تھے اور ان کو بھی ان پر اعتماد تھا۔ چنانچہ جب مولاناباقر کے خلاف قاری جعفرصاحب(جو کہ خود شیعہ تھے، اور ان پر مولوی باقر کے بہت احسانات تھے جن کا ذکر اس کتاب میں وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے) نے مقدمہ چلایا تو مولانا باقر نے بیان میں لکھا تھا:’’رؤساشہر مثل مفتی صدر الدین،مفتی عطاء اللہ خاں اور حکیم احسن اللہ خاں سے میرا نیک چلن اور مدعی کی زیادتی بذریعہ خط دریافت فرمالیں‘‘۔

 

 

زیر تبصرہ کتاب کو معروف صحافی، ہفت روزہ ’خبردار جدید‘ اور روزنامہ ’جدید خبر‘ کے ایڈیٹر معصوم مرادآبادی نے ترتیب دیا ہے۔ اس میں تقریباپندرہ معروف قلم کاروں، مصنفوں اور صحافیوں کے تحریر کردہ اہم مضامین کو جمع کیا گیا ہے۔ بعض تو اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔ ان کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان میں پیش کردہ مواد جوانتہائی کم یاب اور منتشرتھابڑی محنت سے جمع کیا گیا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ مولوی محمد باقر کوان کی تدریسی خدمات اور ملازمت کے وقت انگریزوں سے پزیرائی حاصل تھی لیکن مشن پر گامزن ہونے کے بعد وہ معتوب ہوگئے، عتاب کا سلسلہ ان کی شہادت کے بعد بھی گھرکی مسماری اور اخبار کی ممکن حدتک دستیاب کاپیوں کوتلاش کرکر کے انہیں نذرآتش کرنے کے علاوہ اہل خانہ کو نشانہ بنانے تک جاری رہا۔ امید ہے کہ صحافت کے اس مقصد ومشن کو سمجھنے، اس کی افادیت اور اس جانب مہمیز کے لئے یہ کتاب مفید ثابت ہوگی۔ اس کتاب کے حصول کے لئے خبردار پبلی کیشنز 45/1،للتا پارک، لکشمی نگر، دہلی-110092 سے در ج ذیل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔موبائل نمبر9810780563
<[email protected]>