اور وقت بدلتا گیا!داستان گوئی سے اِی پیپر تک لمحۂ فکریہ

فاضل شفیع فاضل

اردو ادب میں نثر کی ابتدا داستان یا قصہ نویسی کےفن سے ہوئی۔ کہتے ہیں کہ قصہ گوئی کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تہذیب و ثقافت۔ قدیم زمانے میں لوگوں کے پاس تفریح کا کوئی سامان میسر نہیں رہتا تھا۔ لوگوں کو قصہ کہانیاں سننا بےحد پسند تھا۔ ایسے قصے جن میں ما فوق الفطر عناصر جیسے دیو،دیوتا ، پریاں، جن وغیرہ شامل ہوا کرتے تھے۔ انسان ایک خیالی دنیا میں اپنی زندگی بسر کر رہا تھا۔ داستان گوئی کی باضابطہ محفلیں منعقد ہوا کرتی تھی اور ایک داستان پیش کرنے میں کئی مہینے درکار ہوتے تھے اور کچھ داستانیں ختم ہونے میں کئی سال لگتے تھے جس کی مثال داستان الف لیلہ ہے۔

دھیرے دھیرے وقت بدلتا گیا اور انسان اپنے کاموں میں مشغول ہونے لگا اور داستان گوئی کی جگہ ناول نگاری اور افسانہ نگاری نے لی۔ ناول ایک نثری قصہ ہے جو کہ پوری زندگی پر دکھایا جاتا ہے اور داستان سے کافی مختصر ہوتا ہے۔ ناول زندگی کا کُل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔ ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق ہے۔ افسانہ اپنے اختصار کی وجہ سے اردو ادب کی مقبول ترین صنف بن گئی اور لوگوں میں کافی مقبول بھی ہوئی۔ انیسویں صدی میں ناول اور افسانہ کے ساتھ ساتھ اخبار بینی ، ادبی اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ بڑی باریکی کے ساتھ کیا جاتا تھا اور اس طرح لوگ اپنا قیمتی وقت صرف کیا کرتے تھے ، جس کی وجہ سے متعدد قلم کاروں، ناول نگاروں، افسانہ نگاروں اور مشہور شاعروں نے جنم لیا اور اس طرح اردو ادب پروان چڑھتا رہا۔ ہر سو اردو ادب کا سورج چمک رہا تھا۔

اگر بات اخبار بینی کی کریں،خواہ روزنامہ ہو یا ہفتہ وار، اس کا مقصد فن ابلاغ ہے۔ اخبار وہ سماجی ادارہ ہے جو سماج کو نہ صرف آئینہ دکھاتا ہے بلکہ اس کی تعمیر و تشکیل میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ روزانہ اخبار پڑھنے سے انسان دنیا اور اپنے گرد و پیش کے حالات سے آگاہ رہتا تھا۔ اس زمانے میں لوگوں کو اخبار سے محبت تھی ۔

وقت بدلتے کہاں دیر لگتی ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی ایجاد نے انسانی زندگی بدل کے رکھ دی۔ انسان انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ساتھ اتنا مشغول ہوا کہ اخبار بینی اور کتابوں کا مطالعہ ایک پہیلی بن کے رہ گئی۔ چند سال قبل ہی روزانہ اخبار کے آنے کا بڑی بے صبری کے ساتھ انتظار رہتا تھا اور لوگ بازاروں سے طرح طرح کی ادبی کتابیں خرید کر ان کا مطالعہ کرتے تھے۔ پچھلے تیس سالوں میں یہ عمل گھٹتا ہی گیا اور بات یہاں تک آ گئی کہ آج کی نوجوان نسل اخبار بینی اور کتابوں کے مطالعے سے بالکل بے خبر ہے۔ آج کے نوجوان موبائل فون اور انٹرنیٹ کے قیدی بن کر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اردو جیسی شیرین زبان کو پڑھنے اور بولنے میں موجودہ نوجوان نسل کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے! جہاں کتب فروشوں کے دکانوں پر طرح طرح کی اردو ادب سے وابستہ کتابوں کا ذخیرہ رہتا تھا، اب ان دکانوں پر مشکل سے ہی اردو کی کوئی کتاب ملتی ہے۔

موبائل اور انٹرنیٹ نے سب سے زیادہ متاثر پرنٹ میڈیا کو کیا ہے ،جس میں صحافت خاص طور سے اخبار نویسی کا پیشہ آتا ہے۔ جو اخبار آج سے محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوا کرتے تھے، ان کی گنتی سینکڑوں میں بھی نہیں ہے اور اس کی وجہ ہے ای پیپر(E-Paper) جو رات کے بارہ بجے ہی موبائل فون میں دستیاب رہتا ہے اور اس طرح اخبار بینی کا عمل ختم ہونے کے عروج پر ہے۔ اسی طرح کتابیں بھی انٹرنیٹ پر دستیاب رہتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی خرید و فروخت میں کافی حد تک کمی رونما ہوئی ہے۔ آج کی نوجوان نسل مطالعہ کے عمل سے دور بھاگتی نظر آرہی ہے۔ موبائل فون میں اخبار پڑھنے کو قطعی اخبار بینی کا نام نہیں دیا جا سکتا اور ٹھیک اسی طرح انٹرنیٹ پر دستیاب کتابوں کو پڑھنا مطالعہ نہیں کہا جائے گا۔ ایک ہاتھ میں اخبار یا کتاب پڑھنے کا احساس ہی الگ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا بھی انٹرنیٹ کے زمرے میں آتا ہے اور سوشل میڈیا نے صحافت خاص طور سے اخبار نویسی کی دنیا بدل کے رکھ دی۔ جہاں بازار میں لاتعداد اخبار فروشوں کی رونق رہتی تھی، آج اسی بازار میں مشکل سے ایک اخبار فروش ملتا ہے گویا اخبار بیچنا اس کی مجبوری بن گئی ہو۔ ان سب چیزوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ ہم نے خود اخبار خریدنا اور پڑھنا چھوڑ دیا ہے اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تووہ وقت بھی دور نہیں جب بہت سے اخبارات شائع ہونا بند ہوجائیں گے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اخبار بینی اور کتابوں کے مطالعے کے فن سے آگاہ کریں اور ان کے فوائد سے اپنے بچوں کو روشناس کریں۔اردو نثر اور غزل ہمارے لئے ایک سرمایا ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ آج کے دور میں اگر اردو ادب کو کوئی فروغ دے رہا ہے تو وہ ہیں ہمارے اردو اخبارات!

ہماری سرکار بھی اردو ادب کو فروغ دینے میں ناکام رہی ہے اور اخبار کی خریدوفروخت کو لے کر سرکار بالکل غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا رہی ہے۔ سرکاری دفتروں اسکولوں میں تو باضابطہ اخبار بینی کے لئے سرکار کی طرف سے پیسے تو آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اخبار نہ تو کسی سرکاری دفتر میں دِکھتا ہے اور نہ ہی کسی سرکاری اسکول میں!

ہم سب کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا سے باہر نکلنا ہوگا اور اپنے بچوں کو بھی اس قید سے آزاد کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اردو ادب کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کریں اور ساتھ میں ہی اخبار بینی کی عادت ڈالیں جو یقیناً ان کے مستقبل کے لیے ایک کارآمد قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ بچوں کی صحیح تربیت والدین کا اولین فرض ہے اور میرا ماننا ہے کہ کتابوں کا مطالعہ اور اخبار بینی جیسی عادتوں سے ہمارے بچوں کی صحیح ترجمانی ہوسکتی ہے۔
[email protected]