انٹرنیٹ آف تھنگس اربوں ڈالر مالیت کی معیشت

لیاقت علی جتوئی

ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا انقلاب جنم لے چکاہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں چائے کی پیالیاں آپس میں باتیں کریں گی اور گملے میں نصب پودے اپنا پیغام خود ترسیل کریں گے۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بات مذاق ہے تو آئیے آپ کے ساتھ ایک منظرنامہ شیئر کرتے ہیں۔ شاید آپ کو محسوس ہو کہ یہ منظرنامہ کسی سائنس فکشن فلم کا ہے لیکن درحقیقت یہ اور اس جیسے منظرنامے پہلے ہی حقیقت کا روپ دھارچکے ہیں۔
(الف) ایک صبح دروازے پر دستک ہوتی ہے، آپ دروازے تک جاتے ہیں تو وہاں موجود بیکری والا کہتا ہے کہ اسے آپ کے فریج نےانڈے ختم ہونے پر میسج بھیجا ہے۔ (ب) آپ کے فون پر ایک ٹیکسٹ پیغام نمودار ہوتا ہے، جس میں گلاب کا پودا پیاس کے مارے چیخ رہا ہے۔ (ج) آپ جیسے ہی کافی کا ایک کپ پی کر اسے ٹیبل پر رکھتے ہیں تو کپ پرایک پیغام نمودار ہوتا ہے، جس میں پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ ایک اور کپ پینا پسند کریں گے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس نئے اُبھرتے ہوئے منظر نامے کو’ انٹرنیٹ آف تھنگس‘(IoT) یا اشیائے انٹرنیٹ کا نام دیا گیا ہے، جس میں انٹرنیٹ ہر بے جان شے میں نفوذ کرجائے گا اور گھر کی بے جان اشیا اپنا احساس دلانے لگیں گی۔
امریکی شہر گریٹ فالز میں واقع الیکس ہاکنسن نامی انجینئر کا گھر ایک خصوصیت رکھتا ہے۔ اس میں ایسے سیکڑوں مشینی آلات موجود ہیں، جو روزمرہ کاموں میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ یہ مشینی آلات، کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ کھڑکیوں، دروازوں، دیواروں حتیٰ کہ کمروں کی چھتوں پر دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ ننھے آلات، نیٹ ورکنگ کی بدولت ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں اور پیغام رسانی کرتے ہیں۔ الیکس ہاکنسن کے گھر میں کافی کی ایسی پیالیاں موجود ہیں، جو الارم کلاک سے باتیں کرتی ہیں۔ایسے تھرموسٹیٹ ہیں جو موشن سنسرز کو ہدایات دیتے ہیں، گھر میں ایسی ننھی مشینیں نصب ہیں، جن میں مصنوعی ہی سہی، زندگی ضرور دوڑ رہی ہے۔ یہ منظرنامہ ظاہر کرتا ہے کہ بنی نوع انسان کی زندگی میں ایک نیا انقلاب جنم لے چکا ہے۔ یہ کایا پلٹ، ریڈیائی لہروں کے ذریعے کام کرنے والے وائرلیس نظام ’وائی فائی‘ اور اسمارٹ فونز کی ایجاد کے ذریعے ممکن ہوئی ہے۔ مشین اور انسان کا ایسا قریبی میل ملاپ انسانی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے۔
اس شعبے کی تیز رفتار ترقی دیکھتے ہوئے ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2025ء تک دنیا میں ایک کھرب نیٹ ورک آلات انسانوں کی خدمت میں مصروف عمل ہوں گے۔ صرف ایک امریکی کمپنی، جنرل الیکٹرک کی مثال دیکھئے۔ یہ کمپنی اپنے پچاس مختلف منصوبوں میں سنسرز اور ننھے آلات کی مدد سے کام آسان بنا چکی ہے۔ ان میں پن چکیاں اور ریلوے انجن جیسے بڑے منصوبوں سے لے کر مائونٹ سینائی میڈیکل سینٹر (نیویارک) جیسا جدید منصوبہ شامل ہے۔ اس ہسپتال کے بستروں میں نصب سنسرز انتظامیہ کو مریضوں کی حالت اور بستر خالی ہونے کی صورت میں اطلاع دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں انٹرنیٹ آف تھنگس، دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں چھا جائے گی۔ وہاں کروڑوں چھوٹے چھوٹے آلات انسانی زندگی بہت سہل بنا دیں گے۔ یقیناً انٹرنیٹ سے منسلک آلات کو مختلف طرح کےوائرس اور ہیکرز سے خطرہ رہے گا لیکن مضبوط سیکیورٹی کے ذریعے یہ حملے ناکام بنا دیے جائیں گے۔
سان فرانسسکو میں آئی ٹی ماہر ’’ ٹم کوٹس‘‘ کے گھر میں بظاہر کوئی انوکھی بات نہیں لیکن یہاں موجود تمام گملوں کی مٹی میں ننھے سنسر نظر آتے ہیں، جو پودے کی نمی پر نظر رکھتے ہوئے اس کی کمی بیشی کی خبر انٹرنیٹ پر بھیجتے ہیں۔ یہی نہیں ان کے گھر کا ہر کمرہ سنسرز سے لیس ہے اور آنے جانے والوں کو نوٹ کرتا ہے جب کہ انٹرنیٹ سے منسلک ہراہم گھریلو شے ٹوئٹ کرتی ہے اور اس طرح بے جان اشیا کو بھی جان مل گئی ہے۔
ان سب اشیا میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ وہ انٹرنیٹ یا کسی گھریلو نیٹ ورک سے جڑی ہیں۔ ٹم کوٹس اس بات پر خوش ہیں کہ ان کا گھر بے جان نہیں بلکہ ایک باشعور مقام ہے۔ ان کے کمرے میں قدم رکھتے ہی ہیٹر، اے سی یا پنکھے خود بخود آن ہوجاتے ہیں، سیڑھیوں پر سے قدم ہٹانے کے چند لمحوں بعد روشنیاں گُل ہوجاتی ہیں، تمام اشیا اپنی ضرورت کے لحاظ سے وائی فائی، بلیو ٹوتھ یا زگ بی نیٹ ورک استعمال کرتی ہیں۔
انٹرنیٹ آف تھنگس سے طبی دنیا میں بھی ایک انقلاب آگیا ہے اور اب مریضوں کے جسم میں ایسے سنسر نصب کیے جارہے ہیں، جو وائرلیس نیٹ ورک سے جُڑ کر پل پل کی خبر انٹرنیٹ پر جاری کرتے ہیں، جنہیں ڈاکٹر اور ماہرین دیکھ سکتے ہیں اور فوری طور پر مناسب قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے ان کمالات سے جُڑے کئی اہم سوالات بھی ہیں، جن کے جواب تلاش کرنا ہوں گے۔ کیا ہم اطلاعات کے اس سیلاب کو سنبھال پائیں گے؟ ایسے آلات کے لیے بجلی اور نیٹ ورک کی فراہمی ایک مسئلہ ہے ۔ سماجی لحاظ سے کیا یہ آلات ہماری پرائیویسی کو متاثر کرسکتے ہیں؟ امریکی مدبر، نارمن پیلے نے کہا تھا،’’اپنے خیالات بدلیے اور دنیا کو بھی بدل ڈالیے‘‘۔ انٹرنیٹ آف تھنگس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ننھی منی نیم خودمختار مشینوں کی آمد سے حقیقتاً ہماری دنیا بدل چکی ہے۔