انصاف کے پیمانے جداگانہ کیوں ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
جون کے اسی مہینہ کے دو جمعہ کو ملک بھر میں دو مختلف نوعیت کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ پہلا مظاہرہ 10؍ جون کو بعد نماز جمعہ مسلمانوں نے شان رسالتؐ میں کی جانے والی گستاخیوں کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کر تے ہوئے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے تھے۔ دوسرا مظاہرہ مرکزی حکومت کی اگنی پتھ اسکیم کے خلاف ملک کے نوجوانوں نے 17؍ جون کو جمعہ کے دن منظم کیا تھا۔ جمہوریت میں احتجاج کرنے اور حکومت سے اپنی ناراضگی جتانے کا حق ہر شہری کو حاصل ہے۔ کسی کے ساتھ ناانصافی ہو تی ہے تو اسے حق ہے کہ وہ اپنے حق کو منوانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالے۔حکومت کا کام ہے کہ وہ کسی بھی احتجاج کے وقت چوکس و چوکّنا رہے اور کسی بھی قسم کے تشدد کو نہ ہونے دے۔ اور اگر تشدد کے واقعات ہو تے ہیں تو خاطیوں کو قانون کے مطابق سزا دے۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ جہاں تشدد کا کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا ،وہاں پولیس نے اپنی طاقت کا بیجا استعمال کر تے ہوئے بے گناہ انسانوں پر اپنا غصہ اُتارا۔ اور جہاں شروع سے آخر تک مظاہرین تشدد کا انداز اختیار کئے ہوئے تھے وہاں پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ حکومت اور پولیس کا یہ دووہرا معیار ہی دراصل کئی اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔10 ؍ جون کومسلمان اہانت رسولؐ کا ارتکاب کرنے والے شرپسندوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا مطالبہ کر تے ہوئے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو انہیں موت کے گھاٹ اُ تاردیا جا تا ہے۔ ان نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیا جا تا ہے ، اور ان کے گھروں کو بلڈوزر لگا کر زمین دوز کر دیا جاتا ہے۔ 17؍ جون کو ہونے والے مظاہرہ کے دوران سینکڑوں تشدد کے واقعات ہو تے ہیں۔ٹرینوں اور بسوں کو جلادیا جاتا ہے، کروڑوں بلکہ اربوں روپیوں کی املاک تباہ و برباد کردی جا تی ہے۔15 تا 20 ریاستوں میں حالات بے قابو ہو جا تے ہیں۔ اس ساری تباہی و بربادی کے باوجود وارانسی کے پولیس کمشنر کہتے ہیں کہ جن نوجوانوں نے یہ احتجاج کیا ہے یہ ہمارے بچے ہیں ، یہ باہر سے نہیں آئے ہیں ، انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے اور سمجھایا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پہلے جمعہ کو رانچی میں نپور شرما اور نوین جندل کی گرفتاری کے لئے جو نوجوان احتجاج کر رہے تھے کیا وہ ملک کے بچے نہیں تھے۔ کیا ان کو ترغیب دے کر احتجاج سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔ وہاں تو راست گولیاں چلادی گئی ، جس کے نتیجہ میں دو معصوم بچوں کی جان چلی گئی۔ صدمہ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس نے ایسے بچوں کو موت کے گھاٹ اُ تار دیا جو قوم کا مستقبل تھے۔ ایک نوجوان مدثر ، جس نے SSCکا امتحان دیا تھا، وہ اعلیٰ درجہ سے امتحان میں کا میاب ہوگیا، لیکن آج وہ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ اس کے والدین اس وقت جس غم کا شکار ہوئے ہیں کیا بنارس کے کمشنر صاحب اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ہر وہ انسان جو اپنے دل میں تڑپتا ہوا دل رکھتا ہے اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ مسلمان اگر احتجاج کریں تو اس کو ختم کرنے کے لئے پولیس اپنی ساری طاقت جھونک دیتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے بدلتے ہوئے تیور کو دیکھتے ہوئے بعض گوشوں سے مسلمانوں کو احتجاج سے روکا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ تو پُرامن احتجاج کر تے ہیں لیکن شرپسند عناصر اس میں شامل ہو کر تشدد کو پھیلادیتے ہیں، پھر الزام مسلمانوں پر ہی آ تا ہے۔ ان کے بچے ہی شہید ہو تے ہیں، ان پر ہی بے جا مقدمات دائر کئے جا تے ہیں اور پھر ان کے گھروں پر بلڈوزر چلادیا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جو اس وقت ملک میں دیکھا جارہا ہے؟
ہر روز میں ملک میں قانون اور انصاف کی دُہائی دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔ مرکزی سطح سے لے کر مقامی سطح پر اس بات کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر مذہب اور فرقہ کے ساتھ قانون کی فراہمی اورانصاف کے دلانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جا تی۔ ملک کا قانون سب کے لئے یکساں ہے اور کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر ان لوگوں کو حکومت گرفتار کیوں نہیں کر رہی ہے جنہوں نے انسانیت کی سب سے عظیم ہستی محسن انسانیت ؐ کی شان میں گستاخانہ جملے کہے ہیں۔ نپور شرما اور نوین کمار جندل نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاکر ساری دنیا کے مسلمانوں کو بے چین کر دیا ہے، پھر بھی مرکزی حکومت ان دونوں کی پشت پناہی میں کیوں لگی ہوئی ہے۔ انہیں قانون کے مطابق سزا دینے سے حکومت کیوں کترا رہی ہے۔ ان دریدہ دہنوں کو جب تک قانون کے شکنجہ میں کَسا نہیں جائے گا مسلمان احتجاج کر تے رہیں گے۔ کیا اس ملک میں مسلمانوں سے یہ حق بھی چھین لیا گیا کہ وہ اپنے رسولؐ کی شان میں ہونے والی گستاخیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا بھی اظہار نہ کریں۔ جمعہ کے موقع پر مسلمانوں نے جو احتجاج کیا ، وہ کسی مذہب یا فرقہ کے خلاف نہیں تھا، نہ وہ حکومت کے خلاف کوئی بغاوت تھی۔ لیکن اس کے باوجود جس بے رحمی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا، اس سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بڑی سے بڑی مصیبت آنے پر بھی مسلمان اپنے غم او رغصہ کا اظہار نہیں کر سکتے ۔ مسلمان اگر جذبات سے بے قابو ہوکر احتجاج پر اُ تر آ تے ہیں تو انہیں شدید حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ توہین رسالتؐ کے خلاف ہونے والے احتجاج کے بعد پولیس نے جو کاروائیاں کیں ہیں وہ دراصل مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کرنے اور ان میں مایوسی کی ایک خطرناک لہر دوڑادینے کی زبردست سازش ہے۔ مسلمانوں کو یہ سبق دیا جا رہا ہے پولیس کی سنگینوں کو دیکھ کر وہ خوف سے باہر نہ نکلیں ۔ جہاں جہاں مسلمان اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں یہی کوشش کی جا رہی کہ حکومتی طاقت کے بَل پر مسلمانوں کے احتجاج کو کچل دیا جائے۔ یہ کیسا دور چل رہا ہے کہ جن کو جیل بھیجا جا نا چاہئے وہ بڑے آرام سے ملک میں گھوم پھر رہے ہیں، اُن کی لگائی ہوئی آگ سے سارے مسلمانوں کے دل چھلنی ہو گئے ہیں ، پھر بھی انہیں اس کا غم اور افسوس نہیں ہے کہ انہوں کتنا بڑا جرم کیا ہے۔ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب ملک میں قانون اور انصاف کے پیمانے الگ الگ ہو گئے ہیں۔ کوئی عام شہری کوئی غلط کام کر تا ہے تو اس سے الگ انداز میں نمٹا جا تا ہے، اور کوئی مسلمان کوئی پُرامن احتجاج بھی کرے تو اس کے لئے جیل جانا لازمی ہوجاتا ہے۔ عاشقانِ رسولؐ کا قصور کیا ہے۔ وہ یہی مطالبہ کر رہے ہیں جس نے بھی توہین رسالتؐ کی ہے اسے سزا ملنی چاہئے۔ یہ مطالبہ کوئی غیر آئینی اور غیر واجبی نہیں ہے۔ نپور شرما اور نوین جندل نے اپنی ہرزہ گوئی کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں پر جو ضرب لگائی ہے اس زخم کو مندمل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انہیں اس کی سزا ملے۔ اسلامی حکومت میں شاتم رسولؐ کی سزا قتل ہے۔ ہندوستان میں اسلامی حکومت نہیں ہے، اس لئے ہم یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ملک کے قانون کے مطابق قرار واقعی سزا ان دونوں کو دی جائے۔ ہندوستان میں جہاں مسلمانوں کی آبادی حکومت کی مردم شماری کے مطابق چودہ فیصد ہے۔ اگر اتنی بڑی آبادی کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کیا جاتا ہے تو پھر اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں ہونی والی ان حرکتوں کو مسلمان برداشت نہیں کر سکتے۔ نپورشرما اور نوین جندل کوزہر افشانی کے لئے بے لگام چھوڑ دینا ملک میں افراتفری کا سبب بنے گا۔اس کے لئے مسلمان ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والے تمام مذاہب کے احترام کی بات کرتے ہیں، اس پر عمل ناگزیر ہے۔
اگنی پتھ اسکیم کے خلاف نوجوانوں کا احتجاج صحیح تھا یا غلط ، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ لیکن تشدد کے واقعات پر حکومت جو جداگانہ موقف اختیار کرتی ہے وہ سوال اس وقت زیر بحث ہے۔ پہلے واقعہ میں جہاں مسلمانوں نے شان رسالتؐ میں گستاخی کے خلاف پرامن احتجاج کیا تھا ، وہاں پولیس نے جس تعصب کا ثبوت دیا اس سے اس کی تنگ نظری اور مسلمانوں کے تئیں نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسرا احتجاج جو اگنی پتھ کے خلاف ہوا ، وہاں پولیس احتجاجیوں کی دوست بن کر سامنے آ تی ہے۔ ہندوستان کے 25کروڑ مسلمانوں کے درد کو حکومت محسوس کرنے اور اس پر مر ہم رکھنے کے بجائے ان زخموں کو تازہ کر دیا جا تا ہے تو پھر یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اس ملک میں انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ جن لوگوں نے حضوراکرمؐ کی شان میں گستاخی کی حکومت ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے اب بھی تیار نہیں ہے۔ آزادیِ اظہار خیال کی بنیاد پر کیا ہر کسی کو یہ حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی مذہبی شخصیت کے بارے میں یاوہ گوئی کرتا پھرے۔ اگر ایسا ہوگا تو پھر ہر مذہبی شخصیت کے کردار کو مجروح کرنے کی کوتاہ ذہن لوگ کوشش کریں گے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف فوری کاروائی ہو جو مقدس ہستیوں کے خلاف لب کُشائی کرتے ہیں۔ اس کے لئے باضابطہ قانون کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں کئی مذاہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب میں قابلِ احترام شخصیتیں موجود ہیں، اُن کا ہر ایک کو احترام کرنا چاہئے۔ اس لئے پارلیمنٹ ایسے قانون کو منظور کرے جس میں یہ واضح کردیا جائے کہ کسی مذہبی شخصیت کے بارے میں کی جانے والی گستاخی قابل سزاجرم عمل ہوگا اور اس پر خاطی کو سزا دی جائے گی۔ اس قانون کے نہ ہونے سے ہر تھوڑے دن بعد خاص طور پر مسلمانوں کے مقدسات پر حملہ کیا جا تا ہے۔ کبھی قرآن کو پھاڑنے اور جلانے کے بدبختانہ واقعات اس ملک میں ہو تے ہیں۔ کبھی قرآن کی مخصوص آیات کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی شانِ رسالتؐ میں گستاخی کرتے ہوئے مسلمانوں کو ذہنی اذیت دی جا تی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے یہ سلسلہ رُکنے والا نہیں ہے۔
حالات کے اس تناظر میں کسی ایک واقعہ کو الگ رکھ کر نہ دیکھا جائے۔ ملک میں جو منظر نامہ اُبھر رہا ہے وہ ہم سے ایک طویل اور جاں گسل جدوجہد کا متقاضی ہے۔ جلسے، جلوس اور قراردادیں مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ عزم اور حوصلہ اور اتحاد کے ذریعہ ہی مسلمان حالات سے نبردآزما ہو سکتے ہیں۔
(رابطہ۔ 9885210770)
[email protected]