انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا! فکر انگیز

سید مصطفیٰ احمد

زینہ کوٹ سرینگر

روئے زمین پراللہ نے سب سے اچھی مخلوق انسان بنائی ہے۔ مگر یہی اچھی مخلوق ،جہاں خود انسانی مخلوق کے لئےستم زدہ بن گئی ہے وہیں دوسرے مخلوقات کے لئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہےاورشکل ِ انسانی کے روپ میں انسانیت کے منصب سے گر کر حیوان سے بھی بدترہوگئی ہے۔ بلا شبہ سب سے اچھی مخلوق انسان ہی تو ہے،کیونکہ اس کو شعور سے نوازا گیا ہے،اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے،اُسے وہ سب کچھ عطا کیا گیا، جس سے وہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہےاور رنجش کی حالت میں بھی صلح پر سبقت پاسکتا ہے۔ خوشی ہو یا غم ہر حالت میں نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی حفاظت کا احساس رکھتا ہے۔ ایک انسان میں اگر درندگی کے کچھ صفات جنم بھی لے چکے ہوں، تب بھی اس کے اندر رحم کے genes موجود ہوتے ہیں۔ دنیا میں بہت سارے dictators یا absolutists نے جنم لیا ،اور اپنے کارناموں کی اچھی اوربُری دلیلیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ کئی درندگی کے آخری پائیدان پر بھی براجمان رہے، مگر کہیں نہ کہیں ان کے اندر بھی رحم کے آثار موجود تھے۔ انہوں نےلامنتہائی ستم ڈھائے ، مگر پھر بھی ان کے اندر انسانیت کی رمک موجود تھی، The Mongols اس کی واضح مثال ہے۔ وہ لوگ جن کا کام loot and destroy تھا، وہ بھی تہذیب یافتہ بن کر finer values of civilization کی ترویج دینے لگے۔ انہوں نے وہ کر کے دکھایا جو موجودہ زمانے میں سوچنا بھی محال دکھائی دیتا ہے۔

 

 

پرانے زمانوں میں انسان نے انسانوں کے ساتھ جو زیادتیاں کی ہیں، اُن کو ہم یہ سوچ کر nullify کرسکتے ہیں کہ وہ غیر تہذیب یافتہ تھے۔ انہیں تہذیب کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں تھیں۔اُن کی پرورش ویرانوں،صحراوئوں ،بیا بانوںاور جنگلوں میں ہوئی تھی، جس کی وجہ سے وہ محض اپنی بقاء کے لئے دوسروں پر زیادتیاں کرنے میں حد سے گذر جاتے تھے۔ وہ مذہبی جنون کا بھی شکار تھے اور ideological supremacy کے اپنے محدود بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ ان کو ترقی کے بارے میں کوئی علم نہ تھا اور دنیائے جہاںکی آشنائی سے محروم تھے۔پھر جب انہوں نے عقل و شعور کا سہارا لینا شروع کردیا اور ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے تو ایسے کارنامے بھی انجام دیئے جوکہ دورِ حاضر کے انسان کے لئے راہِ مشعل اور باعث تقلید ہیں۔پھر جب یہی انسان خالق کے بتائے ہوئے حدود سے باہر قدم رکھنا لگا ،تو اُس نے دوبارہ اپنے اوپر ظلم کرنا شروع کردیا، خلقت کو راضی کرنے کی فکر کو بھول گیا اور دنیا کی امارت کے عوض آخرت کو بھی برباد کرگیا ۔اب اگرآج کے انسان پر نظر ڈالی جائے توآج کا انسان، جوکہ اپنے آپ کو تہذیب یافتہ، full of exposure اور تعلیم یافتہ کہتے نہیں تھکتا ۔ کیا اس لئے مغرورہوچکا ہے کہ دنیائےعلم میں وہ اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ اب قدرت کے کارخانے میں اُسی کا سکہ چلتا ہے، کیونکہ اُس نے کائنات کے دوسرے سیاروں پر اپنی پہنچ کی طاقت حاصل کرلی ہے۔ سمندروں کی تہوں میں اُتر کر اُن کو کھنگالنا شروع کردیا ہے۔ Atom bombs اور hydrogen bombs سے کہیں بھی انسان تو کجا درند ،پرند اور چرند تک کو بھی نیست و نابود کرسکتا ہے۔گویا اعلیٰ سے اعلیٰ تر بننے کی دوڑ میں اب آج کا انسان تو کئی کمالات کا اُستاد تو بنا، مگر انسان ہونے کے ناطے حقیقی معنوں میںانسان نہ بن سکا۔اس دور کے انسان کے کالے کارنامے اب دنیا بھرمیں عیاں و بیاں ہیں۔ قدرتی نظام میں کے مختلف معاملات میں اس انسان کے مداخلت ِ بے جا کی وجہ سے زمین، آسمان ، سمندر، پہاڑبھی تباہی کے مناظر دکھا رہے ہیں۔حرص اور طمع کا ایسا دیوانہ بن گیاکہ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں چھوڑا، جہاں کا قدرتی نظام برقرار رہتا۔ خود غرضی اور لالچ میں ہر طرح سے انسانیت کا گلا گھونٹا رہا۔ جنگلات کا صفایا، سمندروں میں کثافت، زہریلی گیسوں کا اخراج، مذہبی لڑائیاں، نسلی تعصب، imperialism یا neo-colonialism، blind nationalism، linguistic، وغیرہ جیسے غلط اور ناجائز کاموں میں ایسے مصروف رہا کہ اب اگر انسان کی ان تباہ کاریوں کی شروعات کریں تو ختم ہونے کا نام نہیں لیں گی ۔جبکہ انسان کے ان بُرے اعمال کے نتائج مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ہاں!یہ بات بھی واضح ہے کہ زیادہ تر گناہ مذہب، زمین اور ideological differences کے نام پر ہوئے اور بدستور ہورہے ہیں۔ جب سے مذہب ایک ادارہ کی حیثیت کر گیا ، تب سے انسان نے خدا کو جیسے خرید ہی لیا ہے۔ ایک ہی مذہب کے مختلف فرقےاپنے آپ کو سچ ثابت کرنے کے لئےہتھیار سنبھالے ہوئے ہیں،اور ایک دوسرے پر غالب ہونے کے لئےظلم و زیادتیا ں بھی کررہے ہیں۔ Inter-religious wars کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ Inter-religious wars نے تو پہلے ہی سماج کی کمر توڑ رکھی تھی۔ رہی سہی کسر بعد الذکر نے پوری کرلی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال صلیبی جنگوں کی ہے۔ یہ ساری جنگیں خدا کے نام پر لڑی گئیں ، ان جنگوں میں ہزاروں لوگ موت کی وادی میں چلے گئے۔ یہ کہنا شائد غلط نہ ہوگا آج بھی یہی سوچ دنیا کے کئی خطوں میں کارفرما ہے۔ اس کے علاوہ neo-colonialism یا imperialism کی باری آتی ہے۔ اس کی شروعات کہاں سے کی جائے اس کاتعین کرنا بھی مشکل ہے۔ اس کی مثالیں پہلی عالمگیر جنگ، دوسری عالمگیر جنگ، سردجنگ، War on Terror، وغیرہ ہیں۔ ان جنگوں میں لاتعداد انسانوں کی موت ہوئی، لاکھوں معذور ہوئے، کھربوں کا نقصان ہوا، بے تحاشا وسائل کا ضیاع ہوا، مٹی اور پانی تک زہر آلودہ ہوگئے اور نئی نئی لاعلاج بیماریوں نے جنم لیا۔ اب تو روس ۔یوکرین جنگ بھی اس کی ایک تصویرہے۔ ہزاروں جانیں تلف ہوچکی ہیں، اربوں کا نقصان ۔ دنیا بھر میں مہنگائی کی لہر، Global Supply Chains میں خلل، Armament race اور threat of the nuclear war کے خطرات نے پوری دنیا کو خوف میں ڈال دیا ہے ۔جو ایک provocative statement تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ مزید شام، یمن، افریقی ممالک، وغیرہ بھی نہ تھمنے والی لڑائیوں میں لوگ سر سے پاؤں تک خون میں ڈوب چکے ہیں۔ بھوک نے پہلے ہی انہیں نڈھال کیا تھا،اب خانہ جنگی اور استعماری ممالک کے لئے وہ battle grounds بن گئے ۔ لاکھوں انسان مہاجرین کی زندگی جینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور بھکمری کے عالم میں مرکھپ جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے بہت سارے کارنامے ہیں جو آج کے ترقی یافتہ انسان نے انجام دئے ہیں،جن کی فہرست کافی لمبی ہے۔

 

 

بے شک اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے مگر انصاف ضرور کرتی ہے۔ بے گناہوں کو ابدی نیند سلانے والے کبھی بھی چین کی نیند نہیں سو سکتے۔ معصوموں کا قتل عام کر کے اور اس کے عوض اعلیٰ سے اعلیٰ منصب حاصل کرنے والے خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس زمین کو جہنم بنانے والے کھبی بھی چین سے نہیں رہ سکتے۔ بھوک، غربت، کساد بازی،وغیرہ کو جنم دینے والے اپنے ہی ہاتھوں کا گوشت کھائیں گے۔ شہروں کے شہروں کو تباہ کرنا اور پھر معافی مانگنا موجودہ درندوں کی کارستانی ہے۔ مگرمچھ کے آنسوؤں بہانا آج کے انسان کی شیوہ بن چکا ہے۔ اے انسان! اب بھی موقع ہے کہ جاگ جا! ورنہ تیری بربادی کے فیصلے آسمانوں میں ہوچکے ہیں۔
[email protected]