انسانی سرکشی کا عجیب معاملہ فکر انگیز

شہباز رشید
انسان بھی کیا عجوبہ ہے کبھی نادم اور کبھی سرکش ،کبھی عاجز اور کبھی متکبر،کبھی نادان اور کبھی دانا،کبھی فیاض اور کبھی بخیل اور کبھی انسان اور کبھی حیوان ۔یہ ایک ہی وجود کے مختلف پیرائے اور زاوئے ہیں جو اپنے آپ کو ہر برا کام کرنے کے بعد بھی جنت کا مستحق سمجھتا ہے،شرف وعزت کا اہل سمجھتا ہے ۔فرش پر بیٹھ کر عرش والے کی نافرمانی کرکے فہم و فراست کی بے شمار دلیلیں فراہم کرتا ہے ۔کبھی زندگی کو چیلنج کرتا ہے اور کبھی موت کو للکارتا ہے ۔فرصت کے لمحات کو مصروفیت کہتا ہے ،ہوس کے اقتضاء کو ضرورت سمجھتا ہے اورمکرو فریب کی نیت کو صالحیت شمار کرتا ہے ۔پل پل میں رنگ اور ڈھنگ بدلنے والا انسان ہمیشگی کا نقارہ بلند کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ کبھی روح کی قرار سے خالی ہو کر خاک کا پتلا رہ کر زیر گور ہوگا۔خاک سے محبت اور خالق کے نام سے بغض،موت کو ماننا لیکن غفلت برتنا۔انسان ہے لیکن ظلم کرنا اس کا شیوہ بن چکا ہے ان امور سے درندگی کا نیا ایڈیشن تیار ہوچکا ہے جو عنقریب اس دنیا کو قتل و غارت گری کے متعلق آئین وضع کرنے کا حق دے گی ۔ابھی شاید کسی ملک میں یہ قانون نہیں ہے کہ کسی کو بلا وجہ قتل کیا جائے ،اگرچہ عمل لوط ،ہم جنس شادی ،سود ،بےحیائی اور عریانیت کو قانونی طور پر تحفظ مل چکا ہے لیکن قتل و غارت گری کا قانون تاہنوز میز پر نہیں تھا ۔
فطرت اسے پرسکون زندگی کا جذبہ اجاگر کرنے کی حتی الوسع کوشش کررہی ہے لیکن یہ ہے کہ بدامنی کی کیچڑ میں لتھڑنے کی چاہ میں مسلسل کوشاں ہے۔انسانیت کا ایک طبقہ آج تو بس نکل ہی گیا ہے حدود کے پھلانگنے میں گویا اسے اپنا مقصد نظر آرہا ہے حالانکہ وہ اس کی صریح تباہی اور بربادی ہے ۔کیا کبھی آگ میں چھلانگ لگانے والا انسان جھلسنے اور کوئلہ بننے سے بچ سکا ہے ۔لیکن حد ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ صرف جلنا چاہتا ہے اور اس جلنے میں اسے اپنا مستقبل ،اپنا وقار اور اپنی کامیابی نظر آتی ہے ۔شر اور فساد پر کبھی کیا کوئی سلطنت برقرار رہ سکی ہے ؟نفرت اوربے رحمی پر کیا کوئی ترقی پا سکا ہے ؟ حسد اور بغض پر کیا کوئی اپنی کامیابی پائدار بنا سکا ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں۔ بس چند لمحات کے لئے ریت کا طوفان بن کر آئے اور پھر کچھ ہی دیر میں خود ریگستان کے بکھرے ہوئے ذرات ہوگئے ۔ان لوگوں کا مستقبل ذرخیز نہیں بنجر ہوتا ہے ،پرامن نہیں ہنگامہ خیز ہوتا ہے ،مطمئن نہیں اُجڑا ہوا ہوتا ہے ۔خدا کے قانون سے بچنے کے لئے ہوس اور وہم و گمان کی حفاظت میں جاتے ہیں ۔کیا خدا تم سے بےخبر ہے کہ جو تم اندرونِ قلب کیا کیا چھپائے ہوئے ہو؟خدابیزاری کی ایک تحریک ہے جسے آج کا انسا ن بڑے زور وشور سے چلا رہا ہے اور ہر ایک اس کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔انسانوں کا ایک کثیر گروہ راکھ کا پجاری بنتا ہے ،آگ کا بندہ بنتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ غلاظت کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن اس پاک و برتر ذات باری تعالی کے سامنے سرنگوں نہیں ہو نا چاہتا ۔اس کی وجہ ہے کہ کچھ جاہل اور درندے ان کی غلط تربیت کرکے انہیں فطرت سے ،انسانیت سے ،اخلاق سے ،تہذیب و شائستگی سے محروم کرکے انہیں یاجوج ماجوج بنانے کا فعل انجام دے رہے ہیں ۔یہ ہیں کہ مجرد درندے ،مجرد سفاک ،مجرد نجس جو خود اپنے وجود کے لئے خطرہ ہیں، انہیں دوسروں کو زخ پہنچانے کی سرشت تو پہلے سے حاصل ہے لیکن یہ ہے کہ ہے مجھکو اگر کوئی خطرہ تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو کے خطرے کو چیلنج سمجھ کر گھناونی حرکات انجام دے رہے ہیں ۔
سیاست کے متوالے انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کا بیڑا پار لگانے کا نعرہ بلند کر رہے ہیں حالانکہ خود ہیں کہ ڈوبنے اور اجڑنے کے قریب ۔جنہیں طوفانوں نے گھیر کے رکھا ہو وہ کیا کبھی کسی کو بچا سکتے ہیں،جو بیچارہ خود قریب المرگ ہو وہ دوسروں کو کیا اعتماد دے گا ۔جن کی اپنی ذات فساد فی لقلب کا شکار ہو، وہ کیسے انسانیت کو فساد فی لبحر و بر سے بچا سکتے ہیں ۔کیونکہ اگر دنیا کو فساد فی البحر وابر سے بچانا ہے پھر تو شرط لازم ہے کہ پہلے فساد فی القلب سے کلی طور پر نجات حاصل کی جائے اور اپنے وجود کو روح کی تحویل میں دے دیا گیا ہو۔اگر یہ کام انجام نہ دیا گیا ہو بلکہ ایک شخص مسلسل اپنی باگیں نفس کے شیطان کو سونپا ہوا ہو ، اپنا مقصد لذت بنایا ہوا ہے اور اپنا مقصد صرف اس دنیا کی رنگینیوں تک محدود رکھا ہوا ہو، وہ کیسے دنیا کو سکون و چین عطا کر سکتا ہے ۔اے انسان موت تیرا محاصرہ کئے ہوئے ہے لیکن تو ہے کہ لذائذ میں ملوث لذیذ تَر کی جستجو میں رات دن کوشاں ہے۔اے انسان ایک تباہی ہے کہ جو تیرے اوپر منڈلا رہی ہے لیکن تو ہے کہ بالکل بے خوف۔سرکشی کی یہ مثالیں بیان کرنے سے قلم بھی لرزتا ہے کہ کیسے اشرف المخلوقات کہنے والی مخلوق سرکشی کے طوفان میں بہے جارہا ہے۔
<[email protected]>