انسانیت کی روح خونچکاں تاریخی حقائق

ڈاکٹر عریف جامعی

 

اللہ تعالی کے سامنے فرشتوں کے اس استفسار پر کہ آپ اپنا ایسا نائب (کیوں) تخلیق فرمائیں گے جو ’’زمین میں فساد برپا کرے اور خون بہائے،‘‘ اللہ کا یہ فرمانا کہ ’’جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے،‘‘ (البقرہ: 30) ظاہر کرتا ہے کہ اگرچہ تخلیق آدم کی غایت اولی بناو ہی ہے، لیکن واقعہ تخلیق کے ذرا دیر بعد ہی انسان نے جو خون بہانا شروع کیا ،اس نے انسان کے اندر موجود بہیمیت کو آشکارا کیا۔ اس سلسلے میں جب ہم آدم ؑ کے بیٹوں، ہابیل اور قابیل کی کشمکش کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قابیل ایک استحصالی نظریے کا علمبردار بن بیٹھا تھا، جبکہ ہابیل ایک سیدھے سادے اور عامیانہ طریقے سے زندگی گزار رہا تھا۔ اس طرح اس واقعے میں پوشیدہ حکمت بھی یہی ہے کہ ایک طرف قابیل کو تاسف اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور دوسری طرف ہابیل کے اندر موجود اخلاقی حس کو ابھار کر سامنے لایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہابیل نے قوت مدافعت ہونے کے باوجود اس کا استعمال نہیں کیا، جبکہ قابیل نے اپنے بھائی کا قتل تو کیا، لیکن اس کے بعد اس کی نعش کچھ اس طرح لیے لیے پھرتا رہا کہ اپنے آپ کو کوے سے کمتر جانا جس نے اسے بھائی کی نعش کی تدفین سکھائی۔ (المائدہ: 31)

تاریخ انسانی میں نوح ؑ کو آدم ثانی کہا جاتا ہے۔ آنجناب کو رب تعالی نے ایک لمبی مدت (العنکبوت: 14) تک انسانی معاشرے میں جاری ہمہ جہت فساد کو رفع کرنے پر متعین فرمایا۔ واضح رہے کہ اس وقت انسانی معاشرے میں فساد کی کچھ اس طرح کی کیفیت تھی کہ طبقہ اعلی کی اکثریت فساد کی علمبردار بنی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے قوم نوح کے ’’نو بڑے فسادیوں‘‘ (النمل: 48) کا ذکر کرکے یہ عندیہ دیا ہے کہ اس وقت انسان نے صلاح کی متاع بالکل گم کردی تھی۔ نوح  ؑکے بیٹے کا آنجناب کے مدمقابل کھڑا ہونا بھی اسی بات کا اظہار ہے کہ قوم کا معتدبہ حصہ انسانی صفات سے عاری ہوچکا تھا اور صلاح کی کسی بھی کوشش کو قبول کرنا تو درکنار اس کو برداشت کرنے سے بھی کوسوں دور تھا۔

تاریخ عالم میں تخلیق کیے گئے عظیم ادب پارے بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انسان کو اس زمانے میں صلاح کے مقابلے میں فساد سے ہی کچھ زیادہ دلچسپی تھی۔ اس سلسلے میں ہم دنیا کے مختلف خطوں میں تخلیق شدہ رزمیہ فن پاروں (ورلڈ اپکس) کو بطور دلیل پیش کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہومر کا ایلیڈ (تصنیف، 750 ق۔م۔) ایک طرف ادبی لحاظ سے رزمیہ شاعری کا ایک ارفع شہ پارہ ہے، وہیں دوسری طرف اس میں دہائیوں پر محیط جنگ و جدل کی عکاسی سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ انسان تو انسان (ہومر یا صحیح تر الفاظ میں شرک پر مبنی تصور کے مطابق) جنگ، بہادری اور تباہی کے دیوتا تک نہ صرف اس فساد کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں، بلکہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح ایک خوبصورت خاتون یا یونانی شرکیہ تصور کے مطابق ایک دیوی یعن ’’ہیلن‘‘ کو بازیاب کرنے کی خاطر نہ صرف درجنوں جنگی سورماؤں کے ماتحت بڑے بڑے شہروں کی ہزاروں کی تعداد میں فوجیں مرنے اور مارنے کے لئے تیار ہوجاتی ہیں۔ ادبی دنیا میں معروف و مشہور ہومر کا یہ ادبی شاہکار بڑی ہی باریک بینی کے ساتھ میدان جنگ کی اس کاٹ مار کو پیش کرتا ہے، جس پر آگے چل کر انسان کسی نہ کسی طرح ضرور ’’فخر‘‘ محسوس کرتا ہے۔ اوڈیسیس کا تیار شدہ ٹروجن گھوڑا (جس کا ذکر ہومر نے اگرچہ ایلیڈ میں نہیں کیا ہے لیکن اوڈیسی سے اشارہ پاکر اس کو ’’ورجل‘‘نے اینیڈ میں تفصیلاً بیان کیا ہے) ایک دہائی کی مار دھاڑ اور دربدری کے بعد یونانیوں کو شہر ٹرائے کو خاک و خون میں نہلا ڈالنے میں کامیاب کرتا ہے۔

اس طرح ملکہ سبا کے اس بیان میں کہ ’’بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اسے اجاڑ دیتے ہیں،‘‘ میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ آباد دنیا کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا کے اکثر خطوں میں یہی صورتحال جاری تھی۔ جہاں ایک طرف اسکندر اعظم (حکمرانی، 336-323 ق۔م۔) جیسا طالع آزما ارسطو (384-322 ق۔م۔) جیسے فلسفی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے کے باوجود دنیا کے بیشتر علاقوں کو اپنی تخریب و تسخیر کا نشانہ بنانے سے باز نہ رہا، وہیں بخت نصر جیسے فرمانروا نے بھی بنی اسرائیل کی پوری قوم کو نہ صرف یہ کہ تاخت و تاراج کیا (587 ق۔م۔) بلکہ پوری قوم کو غلامی کے بدترین اور ذلت آمیز عذاب میں مبتلا کیا۔ ثقافتی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے فرعون نے بنی اسرائیل کے خلاف ایسے سفاکانہ اقدامات کیے کہ اس قوم کی اولاد نرینہ کی کئی نسلوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔ قرآن میں اصحاب کہف، (الکہف: 10) جنہیں تاریخ میں ’’سیون سلیپرس‘‘ کا نام دیا گیا ہے، کے واقعے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ دین مسیح کے ماننے والے یہ نوجوان بھی دراصل تصور توحید پر مبنی اپنے ایمان کو بچانے کی خاطر غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔ قرآن کی رو سے وحدانیت کے ماننے والوں کو ’’اصحاب اخدود‘‘ (البروج: 4) کے غیض و غضب کا بھی شکار ہونا پڑا۔ اس ساری صورتحال کو سید الانبیاء ؐکی اس حدیث کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے جس میں آپ ؐ نے حلقہ بگوش اسلام ہونے والے ’’سابقون الاولون‘‘ کو صبر و ثبات کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اگلے لوگوں کو حق قبول کرنے کی پاداش میں آروں سے چیرا جاتا تھا اور لوہے کے کنگھوں سے ان کے جسموں سے گوشت نوچا جاتا تھا، پھر بھی وہ راہ حق سے منہ نہیں موڑتے تھے۔

یہاں پر اس بات کا اعادہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ دنیا میں اگرچہ صحیح نظریات کے حامیوں کو فتنہ پروروں نے اپنا تختہ مشق بنائے رکھا، لیکن شر اور فساد پھر بھی دنیا کی اصل یا غالب حقیقت نہیں رہے ہیں۔ اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اشوک نے جنگ کلنگ (کالنگا وار، 262 ق۔م۔) کی خونریزی کے بعد تشدد پر مبنی رویے سے کنارہ کشی اختیار کرکے تاریخ عالم میں امن کی روایت کو فروغ دینے میں ایک خاص کردار ادا کیا۔ سائرس اعظم، (590-529 ق۔م۔) جو مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق قرآن کے ذوالقرنین رہے ہیں، نے بنی اسرائیل کو غلامی کی ذلت سے آزاد کرکے ان کی ارض مقدس میں واپسی کا باوقار انتظام کیا۔ یہی نہیں، سائرس نے تہذیب سے عاری قبائل اور نسلوں کو فتح تو کیا، لیکن ان کی کچھ اس طرح تادیب کی کہ وہ نہ صرف مار دھاڑ سے باز آئے بلکہ تہذیب اور شائستگی سے بھی آراستہ ہوئے۔ اسی طرح جب صلاح الدین ایوبی نے فلسطین کو صلیبیوں سے آزاد کیا (1187 عیسوی) تو اس حقیقت کے علی الرغم کہ صلیبیوں نے فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے مسلمانوں اور یہودیوں، دونوں کو تہہ تیغ کیا تھا، آپ نے تمام غیر جنگجوؤں (نان کمبٹنٹس)، جن میں بچے، بزرگ، خواتین، بیمار اور پادری شامل تھے، کی عام معافی کا اعلان کیا۔ صلیبی جنگجوؤں کو بھی ذرا سے تاوان، جس کا ایک معتد بہ حصہ صلاح الدین ایوبی اور آپ کے بھائی نے اپنے ذاتی مال سے ادا کیا، کے عوض رہا کردیا۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹائٹس رومی (70 عیسوی) نے کس طرح فلسطین کو تباہ و برباد کرکے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ منہدم کیا اور یہودیوں کو رسوا کن عذاب میں مبتلا کیا۔ اسی طرح چنگیز اور ہلاکو نے بام عروج پر پہنچی ہوئی، عباسیوں کے زیر سایہ پروان چڑھی ہوئی مسلم ثقافت کو زمین بوس کیا (1258 عیسوی) اور فرات و دجلہ کو نہ صرف خون مسلم سے سرخ کیا، بلکہ مسلمانوں کے قلم و قرطاس کے علمی سرمائے کی روشنائی سے ان دریاؤں کے پانی کو سیاہ بھی کرڈلا۔ آگے چل کر تیمور لنک (1336-1405 عیسوی) نے جنگ کے بعد فتح کا جشن منانے کا ایک الگ ہی طریقہ ایجاد کیا تھا۔ تیمور جب کسی فوج کو شکست سے دوچار کرتا تھا تو مقتولوں کے سروں کی مینار بناکر نمائش کرتا تھا، تاکہ آئندہ کوئی مد مقابل آنے کی جرات نہ کرپائے۔ اپنی فوج کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے اور اپنا رعب قائم رکھنے کے لئے تیمور انسانی سروں پر چڑھ کر ہی اپنی فوج سے خطاب کرتا تھا۔

تاہم یورپ کی نشاہ ثانیہ (ریناسنس، چودھویں سے سترہویں صدی عیسوی) جس کے تحت یونانی اور رومی علوم و فنون کی از سر نو تدوین و ترویج کے بعد ان تہذیبوں، خاصکر یونان میں پروان چڑھنے والے جمہوری طرز حکمرانی کی جدید دنیا کے سامنے پیشکش کے بعد یہ امید کی جاتی تھی کہ دنیا میں سیاسی اور معاشرتی جبر ختم نہ سہی تو کم ضرور ہوجائے گا۔ لیکن انسان کی شومی قسمت کہ یورپ نے اس طرز حکمرانی، جس میں شخصی آزادی کو کلیدی اہمیت حاصل تھی، کو دنیا پر تھوپنا اپنا فرض سمجھا اور یورپ اس نظریہ کو لیکر پوری دنیا کے اعصاب پر سوار ہوا۔ حکمرانی کے اس انداز کو رواج دینے کے لئے دنیا کے مختلف ملکوں کے سیاسی اور سماجی ڈھانچوں کو یورپ نے بالجبر تہہ و بالا کیا۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کا روز اول سے ہی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، اس لئے جمہوریت کا قصر ہمیشہ امراء اور سرمایہ داروں کی بیساکھیوں کے سہارے ہی کھڑا ہوتا رہا۔ جمہوریت کے اس ’’غیر جمہوری‘‘ رخ کو مارکس  (1828-1883 عیسوی) اور انجلز (1820-1895 عیسوی) جیسے معاشی فلسفیوں نے خوب بھانپا۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس نے ’’داس کیپیٹل یعنی سرمایہ ‘‘کے ذریعے جو معاشی جدلیات کا فلسفہ پیش کیا، اس نے دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے مارکس کے بارے میں کہا تھا:

وہ کلیم بے تجلی،  وہ مسیح بے صلیب

نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب

تاہم اس نظریے کے تحت آنے والا 1917عیسوی کا روس کا ’’سرخ انقلاب‘‘ سوا کروڑ جانوں کے ضیاع کے باوجود انسانیت کی دگرگوں صورتحال میں کوئی خاطرخواہ تبدیلی نہیں لاسکا۔اس طرح جب سوشلزم کو فکری نہ سہی لیکن عملی طور پر تاریخ نے ٹھکرایا اور رد کیا، تو سرمایہ دارانہ نظام کے سہارے چلنے والے نظریہ جمہوریت نے بغلیں بجانا شروع کیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب جمہوریت کے نظریہ سازوں اور علمبرداروں نے نوآبادیاتی نظام کے جال میں دنیا کے بیشتر غریب ممالک کو جکڑ دیا، تو انہوں اس کو ’’سفید آدمی کا بوجھ‘‘ (وہائٹ مینز برڈن) کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس طرح جب وطن پرستی اور نسل پرستی کے عفریت نے ان قوموں پر جنون طاری کیا، تو انہوں نے پورے عالم کو جنگ عظیم اول و دوم کے ہتھے چڑھایا۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ جنگ عظیم دوم کا ہی شاخسانہ تھا کہ 1943 عیسوی میں بنگال میں ہلاکت خیز قحط آیا جس میں تقریباً تینتالیس لاکھ (4300000) لوگ ہلاک ہوئے۔ اس قحط کے دوران جب ایک انگریز افسر نے انگلستان کے وزیر اعظم اور جمہوریت کے چمپئن چرچل کو ہندوستان میں قحط کی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا تو چرچل، جس نے خوراک کے گوداموں کو مقفل کرکے گوروں کے لئے محفوظ کیا تھا، نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے روح رواں، مہاتما گاندھی کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرکے اپنے ہی افسر کی درخواست کو دھتکار دیا۔

آج بھی مغرب اپنی خود ساختہ جمہوریت کو ’’غیر جمہوری‘‘ طریقوں سے رواج دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے نام لیوا اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کی خاطر دنیا کے کئی علاقوں، خاصکر مشرق وسطی میں بادشاہتوں کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ مفادات کی اس جنگ میں یمن، شام، لیبیا اور عراق سمیت کئی ایک ممالک تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس مصر میں دہائیوں سے ظلم و ستم کی چکی میں پسی آرہی عوام نے جب عرب بہار (عرب اسپرنگ) کے بعد ایک حقیقی جمہوریت کا تجربہ کیا، تو اسے دو سال سے بھی کم عرصے میں نیست و نابود کیا گیا۔ظاہر ہے کہ انسانیت شر و فساد کی اس دلدل سے تب تک باہر نہیں آسکتی جب تک نہ انسان قول و فعل کے تضاد سے اپنے آپ کو آزاد کرے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان اپنے اعمال کا مزہ چکھتا رہے گا، کیونکہ یہی اللہ تبارک و تعالی کا اعلان ہے:’’خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں انکے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالی چکھا دے۔ (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔‘‘ (الروم: 41)

(رابطہ9858471965)

[email protected]