انسانوں اور درندوں کے درمیان ٹکرائوجاری ۔6سال سے 20نکاتی وائلڈ لائف ایکشن پلان منظوری کامنتظر

جنگلی جانوروں کے حملوں میں 2006سے ابتک 252 ہلاک ،3ہزار سے زائد زخمی

اشفاق سعید

سرینگر //انسانوں پر جنگلی جانوروں کے حملوں کوکم کرنے اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے سال 2016میں سرکار نے 20نکاتی جنگلی حیات ایکشن پلان ترتیب دیا تھا لیکن6برس گزرنے کے باجود بھی اس پلا ن کو سرکارنے منظوری نہیں دی ۔ماہرین کے مطابق اگر سرکار اس پلان پر عمل کرتی ،تو انسانی جانوں پر ہو رہے جنگلی جانوروں کے حملوں میں نہ صرف کمی واقع ہو تی بلکہ جنگلی حیات کا تحفظ بھی یقینی بن سکتا کیونکہ 20نکاتی ایکشن پلان میں بتایا گیا تھا کہ اس سے انسانوں اور جانوروں کی حفاظت کیسے ہو سکتی ہے ۔معلوم رہے کہ کشمیر میں انسانوں پر جنگلی جانوروں کے حملے کی بنیادی وجہ جنگلی جانوروں کے مسکن میں انسانی دخل اندازی ہے اور پچھلے دوبرسوں کے دوران قریب13افراد جن میں کم سن بچے بھی شامل ہیں،جنگلی جانوروں کے حملوں میں ہلاک اور 34زخمی ہوئے ہیں ۔معلوم رہے کہ مقامی انتظامیہ نے 2006 سے انسانی اور جنگلی حیات کے ٹکرائو کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا۔ تب سے اب تک حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 230 افراد ہلاک اور 2,800 زخمی ہو چکے ہیں۔ صرف 2021-2022 میںوادی میں جنگلی جانوروں کے حملوں میں 14 افراد ہلاک اور 31 زخمی ہوئے۔سرما کے موسم میں ان حملوں میں اُس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب پہاڑی علاقوں میں بھاری برف باری ہوتی ہے ۔

 

حکومتی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر میں 2015 اور 2019 کے درمیان جنگلات میں کم از کم 420 مربع کلومیٹر (162 مربع میل) کی کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، لکڑی کی اسمگلنگ، اور مکانات کی بڑھتی ہوئی مانگ ہے اور جب ان کے مسکن ہی خطرہ سے دوچار ہیں تو ایسے میں زیادہ جنگلی جانور انسانی بستیوں والے علاقوں میں دیکھے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک ٹکرائو پیدا ہوتا ہے اور اس سے نہ صرف اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے بلکہ انسانوں کے زخمی ہونے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں ۔ماہرین کے مطابق جنگلاتی علاقوں میں انسانوں کی بے جا مداخلت سے ہی جانوار اپنی آماجگاہ سے بے دخل ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنا رخ بستیوں کی طرف کرتے ہیں ۔پچھلے سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان ٹکرائو طویل مدتی بقا ء کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان انسانی اور جنگلی حیات کے ٹکرائو سے سب سے زیادہ متاثر ہوگاکیونکہ اس میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ شیروں، ایشیائی ہاتھیوں، ایک سینگ والے گینڈوں، اور ایشیائی شیروں اور دیگر انواع کی بڑی آبادی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کشمیر جیسی جگہوں پر جہاں زیادہ تر پہاڑی علاقے جنگلات سے گھرے ہوئے ہیںوہاںانسانی وجنگلی حیات کے بڑھتے ہوئے مڈبھیڑ کا اثر زیادہ رہے گا اور پچھلے کچھ وقت سے یہ اثر زیادہ دیکھا جا رہا ہے اور انسانوں پر نہ صرف تیندئوں کے حملے جاری ہیں ،بلکہ ریچھوں اور انسانوں میں بھی تصادم ہوتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے ۔

 

محکمہ جنگلی حیات کے ایک اعلیٰ افسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ انسانوں اور جنگلی حیات کے مڈبھیڑ میں اضافے کی ایک وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے اور کذشتہ 40 سالوں میں خاص طور پر جنگلات کے قریب انسانی بستیاں آباد ہوئی ہیں اور یہ اس کا نتیجہ ہے جنگلی جانوار اب بستوں میں داخل ہو کر انسانوں پرحملہ آورہوتے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگل سمگلنگ ، جنگلات کو تعمیراتی پروجیکٹوں کیلئے نیست نابود کرنے کا خمیازہ بھی اب خود انسان ہی بھگت رہا ہے ۔محکمہ جنگلی حیات کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ صرف رواں سال ہی محکمہ نے30کے قریب تیندئوں اور جنگلی ریچھوں کو قابو میں کر کے انہیں نہ صرف جنگلی حیات کی پناہ گاہوں بستیوں سے دور چھوڑ دیا ۔انہوں نے کہا کہ پوری وادی میں محکمہ کے پاس نہ صرف سازوسامان ہے بلکہ کنٹرول روم بھی قائم کئے ہیں تاکہ بستیوں میں داخل ہو نے والے جنگلی حیات کو قابو کیا جا سکے ۔اب حد یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کے حملوں کا کم سن بچے شکار ہو رہے ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حکام کو جنگلی جانوروں کے حملوں کے مزید وجوہات کا پتہ لگانے کیلئے ایک مفصل تحقیق کی ضرورت ہے ۔ماہرین کے مطابق محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو یہ جانکاری بھی فراہم کرے کہ کسی جنگلی جانور کے حملے سے زخمی انسان کو فوری طور پر کس طرح کا علاج و معالجہ بہم پہنچایا جانا چاہیے۔ اس طرح کی جانکاری کو گرام پنچایت کی سطح پر عکس بند فلموں اور ملٹی میڈیا کی وساطت سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ محکمہ جنگلات کو ایک ایسا نظام مرتب کرنا چاہئے، جس کے ذریعے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ کس قسم کے جنگلی جانور زیادہ تر انسانی بستیوں میں گھس آتے ہیں اور اْن سے کس طرح سے نمٹا جانا چاہیے۔ معلوم رہے کہ 2016میں سرکار نے محکمہ وائلڈ لائف کے 20نکاتی وائلڈ لائف ایکشن پلان کو منظوری دی لیکن اس پلان کو آج تک منظوری نہیں مل سکی ۔اس پلان پرعملدرآمدسے جنگلی جانوروں کے حملوں میں کمی آسکتی تھی ،پلان میں جنگلی جانوروں ، ماحولیات اور محکمہ کی اراضی کے تحفظ کے علاوہ دیگر اہم چیزوں پر دھیان دیا گیا تھا ۔