امیر دہلویؔؔ۔گنبد و مینار کا شاعر

معصوم مراد آبادی
دہلوی تہذیب کی نمائندگی کرنے والے بزرگ شاعر امیردہلوی بھی ہم سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے 12؍جنوری2023کی رات 93سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ امیردہلوی ان معدودے چند شاعروںمیں سے ایک تھے جنھوں نے دہلی کی آخری بہار کو اجڑتے ہوئے اپنی اشکبار آنکھوں سے دیکھا۔وہ اپنی نوعیت کے منفرد انسان تھے۔ شاعری ان کا شوق تھا ۔ انھوں نے دہلی وبیرون دہلی کے لاتعداد مشاعروں میں شرکت کی ، لیکن شاعری کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔ ان کا سب سے زیادہ دل شاہجہانی جامع مسجد کے پہلو میں واقع اپنے ’حاجی ہوٹل ‘ میں لگتا تھا،جہاں سے وہ جامع مسجد کے خوبصورت منظر کو ہر وقت دیکھتے رہتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ جامع مسجد کے گنبد ومینار انھیں شاعری پر اکساتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب جامع مسجد علاقہ کے بیشترہوٹل کثیرمنزلہ عمارتوں میں تبدیل ہوگئے ہیں ، حاجی ہوٹل اپنی قدامت پر نازاں ہے۔ امیر دہلوی کا پہلاشعری مجموعہ ’شرح جذبات‘ ہے جو1984 میں منظرعام پرآیا تھا۔113 صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کلام میں اہم شاعروں اور نقادوں کی رائے شامل ہے۔ شاعری میںوہ علامہ انور صابری کے شاگرد ضرور تھے ، لیکن ڈٹ کر پڑھنے کے معاملے میںعلامہ انھیں اپنا استاد تصور کرتے تھے۔امیردہلوی کو مشاعرے کو جمانا بھی خوب آتا تھا۔شعرو شاعری سے ان کو بچپن سے شغف تھا ۔وہ نوجوانی کی عمر سے مشاعروں میں شریک ہونے لگے تھے ۔وہ روایتی شاعری کے دلدادہ تھے اور اسی روایتی انداز میں غزل سرا بھی ہوتے تھے۔وہ طبعی طورپر نازک مزاج اور حساس شاعر تھے۔شاعری کے بعد ان کا دوسرا شوق فٹبال کا کھیل تھا۔اپنی وفات سے تین روز قبل اسپتال میں انھوں نے آخری بار اپنا یہ قطعہ حاضرین کوسنایا تھا ۔
وفائے ایثار بن جائیے
ہر دل کے غم خوار بن جائیے
تقاضائے حسنِ وطن ہے یہی
وطن کے پرستار بن جائیے
یادش بخیر، جب دہلی میں لال قلعہ کا مشاعرہ اپنے عروج پر تھا اور اس میں شرکت کو کسی بھی شاعر کے مستند ہونے کی دلیل ماناجاتا تھا ، اس میں امیردہلوی کی شرکت لازمی تھی۔ وہ جن شعراء کے ساتھ جشن جمہوریہ کے اس مشاعرے میں دہلی کی نمائندگی کرتے تھے ان میں استاد رسا دہلوی ،گلزار دہلوی،مخمورسعیدی،شمیم کرہانی، شجاع خاور،امیرقزلباش اور نابینا شاعر عنبر دہلوی کے نام قابل ذکر ہیں۔امیردہلوی اس مشاعرے اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ ترنم میں اشعار پڑھتے تھے اور بھرپور داد وصول کرتے تھے۔مشاعرہ ختم ہونے کے بعد بیرونی شعراء کا قافلہ حاجی ہوٹل میں لنگر انداز ہوتا کہ یہی ان کی قیام گاہ ہوتی تھی۔
حاجی ہوٹل کسی زمانے میں دہلی کے ادبی اڈوں میں شمار ہوتا تھا۔ اردو بازار ختم ہوتے ہی بعد کی عمارتوں کا سلسلہ حاجی ہوٹل سے شروع ہوتا ہے جس کا لمبا زینہ دیکھ کر اکثر لوگ اوپر چڑھنے سے پرہیز کرتے ہیں ، لیکن اس کے صحن میں پہنچ کرجامع مسجد کا خوبصورت نظارہ دیکھ کر ساری تھکان کافور ہوجاتی ہے ۔جامع مسجد علاقہ میں مولوی سمیع اللہ کے اردو بازار میں واقع کتب خانہ عزیزیہ کے بعد یہی شاعروں اور ادیبوں کی سب سے بڑا اڈہ تھا۔ کون ایسا شاعر تھا جس نے اس میں قیام نہ کیا ہو۔ جاں نثار اختر ، فنانظامی کانپوری ، ہلال سیوہاروی، والی آسی،بیکل اتساہی، ملک زادہ منظوراحمد،ہلال رامپوری ،منوررانا ، وسیم بریلوی اور ابرار کرتپوری جیسے درجنوںنام ہیں جو دہلی آکر حاجی ہوٹل میں ہی قیام کرتے تھے۔سردیوں کے موسم میں استاد رسا دہلوی کا مستقل قیام بھی حاجی ہوٹل میں ہی رہتا تھا، جبکہ گرمیوں کے ایام وہ درگاہ شیخ کلیم اللہ میں گزارتے تھے۔
حاجی ہوٹل یوں توامیردہلوی کے چھوٹے بھائی حاجی فیاض الدین کی ملکیت تھا جنھیں لوگ عرف عام میں ’حاجی میاں ‘کہہ کر پکارتے تھے۔حاجی میاں دہلی کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں بڑی مقبول شخصیت تھے۔ انھوںنے بے شمار فلاحی کام کئے اور دہلی کی تمام سماجی اور فلاحی تنظیموں کے روح رواں رہے۔ 2021میںانھیں کووڈ نے ہم سے چھین لیا ۔اس کے بعد امیردہلوی اپنے چھوٹے بھائی کے غم میں مبتلا ہوکر صاحب فراش ہو گئے۔ ان کا پورا خاندان کٹّر کانگریسی تھا اور ہمیشہ سیاسی اورسماجی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہا ۔ امیردہلوی آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی سے اپنی قربت کے قصے ہر کس وناکس کو سناتے تھے۔ان کی ادبی اور سماجی خدمات کا اعتراف پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’امیردہلوی غزل کے شاعر ہیں ۔صاف اور سیدھے لفظوں میں دادسخن دینے والے اور واردات قلب کو بیان کرنے والے ۔وہ اپنی بات کو سلاست ،روانی اور صفائی سے کہتے ہیں ۔ان کی نظر ایسے انسان پر ہے جس کے دل میں فلاح کا جذبہ ہے ، جو ملک وقوم کے رشتوں کو عزیزرکھتا ہے اور خدمت کو شعار کرکے دوسروں کادکھ دردبانٹنا چاہتا ہے ۔‘‘(’شرح جذبات‘ صفحہ2)
امیردہلوی جن کا اصل نام حافظ امیرالدین تھا ۔حاجی ظہورالدین کے بیٹے تھے۔حافظ قرآن ہونے کی وجہ سے انھیں عرف عام میں حافظ امیردہلوی کے نام سے جانا جاتاتھا۔ شاعری میں وہ علامہ انور صابری کے شاگرد تھے۔ ان کے کلام پر دہلی کا پورا اثر تھا ۔ ندرت سخن اور خیال کی شگفتگی کے ساتھ روایتی غزل کی ترنم آفرینی ان کی پہچان تھی۔ ان کے مجموعہ کلام ’شرح جذبات ‘ کو جن شخصیات نے اپنے تاثرات سے سجایا ہے ، ان میںعلامہ انور صابری کے علاوہ پروفیسر گوپی چندنارنگ، راہی شہابی‘ ابرارکرتپوری اور ذہین نقوی شامل ہیں۔اس مجموعہ کلام میں اپنے جس قطعہ کو انھوں نے اولیت دی ہے ،وہ اس طرح ہے۔
اپنے پرتو سے ستاروں کو سجانے والے
میرے ہر اشکِ پریشاں کو گہر کرکے دکھا
ساری دنیا ہےترے فیض سے شاداب مگر
میری نظروں کو بھی ممنون نظر کرکے دکھا
امیردہلوی کی شاعری میں سادگی کا عنصر سب سے نمایاں ہے ۔ اس ہنر کی داد مرحوم راہی شہابی نے ’شرح جذبات‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یوں دی ہے:
’’امیر کے کلام میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انتہائی سادہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے کلام سادہ اور عام فہم ہے ، کہیں پیچیدگی نظر نہیں آتی ، ان کے یہاں مشکل الفاظ شاذ ونادر ہی ملتے ہیں اور اچھے کلام کی یہی تعریف ہے کہ وہ عام فہم اور موثر ہو۔امیر ترنم سے اور خوب چھاکر پڑھتے ہیں۔ جب وہ اسٹیج پرآتے ہیں تو ان کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سامعین کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔کبھی امیر کی رگ مزاح پھڑکتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں ۔
رکھ کے داڑھی امیر غزل خواں
رشک شیخ حرم ہوگیا ہے
(’شرح جذبات‘صفحہ4)
امیر دہلوی اپنی عادات واطوار کے اعتبار سے ایک ملنسار اور دلچسپ انسان تھے ۔ دہلی کے کوچہ میرعاشق میںوہ معروف وممتازشاعر شمیم کرہانی کے ایسے پڑوسی تھے، جس کی مثال اس دور میں ملنا مشکل ہے۔امیر دہلوی کے انتقال سے دہلی کی شعری اور ادبی فضا سوگوار ہے۔ دہلوی تہذیب اور معاشرت کی نمائندگی کرنے والے ان جیسے لوگ اب انگلیوں پر ہی گنے جاسکتے ہیں۔دہلی کا ادبی اور تہذیبی منظرنامہ مسلسل دھندلا ہوتا چلا جارہا ہے۔بقول علامہ اقبال
جو بادہ کش تھے پرانے وپ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
[email protected]