امتیازی سروس قوانین کی منسوخی قابل ستائش ملازمت کے مروجہ قوانین میں بھی ترامیم ناگزیر

جموںوکشمیر حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر پروبیشنر (ملازمت ،تنخواہ اور الائونسز سے متعلق شرائط ) اور فکزیشن رولز 2020 کو ختم کرنے کے اعلان نے سرکاری سیکٹر میں نئے تعینات ہونے والے ملازمین کے ساتھ امتیاز اور استحصال کے ایک کٹھور باب کا خاتمہ کردیا ہے کیونکہ ان رولز کے ذریعے نئے اور پرانے ملازمین کے درمیان امتیاز کیاجارہا تھا اور نئے تعینات ہونے والے ملازمین کو پہلے پانچ اور اب دو سال تک کئی طرح کی سرکاری مراعات سے محروم ہونا پڑرہا ہے ۔چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار کی سربراہی والی کمیٹی نے ان قواعد کو امتیازی اور استحصالی قرار دیکر انہیں ختم کرنے کی سفارش کی جس کے بعد باضابطہ انتظامی کونسل سے منظوری ملنے کے بعد ایک سرکاری حکم نامہ کے ذریعے ان قواعد کا خاتمہ کیاگیا ۔ حکومت کا یہ جموں و کشمیر میں تعینات تمام سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور دیگر مراعات کے معاملے میں ان سے پہلے تعینات شدہ ہم منصبوں کے ساتھ مساوی سطح پر لے آئے گا جو کیڈر میں ایک جیسے یا تقابلی عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں۔یہ قواعد پہلے 2015میں بنائے گئے تھے جن میں پروبیشن کی مدت پانچ سال رکھی گئی تھی تاہم2020میں یہ مدت کم کرکے دوسال کی گئی تھی۔اب منسوخ شدہ قواعدکے مطابق نو تعینات شدہ ملازم کو ابتدائی طور پر دو سال کیلئے پروبیشن پر رہنا پڑتا تھا۔ پروبیشن مدت کی کامیابی کے بعد ہی اُس کی خدمات کو مستقل قرار دیا جا رہا تھا۔پروبیشن کی مدت کے دوران تقرری صرف اس عہدہ پر لاگو کم از کم تنخواہ کی سطح کی حقدار تھا جس پر اسے تعینات کیا گیا تھا۔وہ پروبیشن کے دوران سالانہ انکریمنٹ، مہنگائی الاؤنس، ہاؤس رینٹ الاؤنس اور سٹی کمپنسیشن الاؤنس، یا حکومت کی طرف سے منظور کردہ کسی دوسرے الاؤنس کا حقدار نہیں ہوتا تھا۔نو تعینات شدہ ملازم کو لازمی طور پر اس عہدے پر پانچ سال کی مدت کیلئے کام کرنا تھا جس پر اسے ابتدائی طور پر تعینات کیاجاتا تھا اور وہ پانچ سال کی مدت کے دوران تبادلے کا اہل نہیں تھا۔ تاہم اب موجودہ حکومت نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بہترین مفاد میں سرکاری خدمات میں بھرتی ہونے والوں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کو ختم کرکے ایک بہت بڑا قدم اٹھایاہے اور اس سے یقینی طور پر اُن ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوںکو راحت ملے گی جو ماضی قریب میں سرکاری سیکٹر میں بھرتی ہوئے ہیں اور اس استحصالی نظام کا شکار تھے ۔انہیں امتیازی قوانین کی وجہ سے نہ صرف مالی نقصان اٹھانا پڑرہاتھابلکہ سرکاری سیکٹر میں بھی انکے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جارہا تھا اور پروبیشن کے ایام میں انہیں مستقل ملازم ہی تصور نہیں کیاجاتا تھابلکہ ایسی بھی شکایات ہیں کہ پروبیشن کے نام پر انہیں بلیک میل بھی کیاجاتا تھا اور بنک والے قرضہ دینے سے ہچکچاتے تھے۔چونکہ اب حکومت خود اس بات کا اعتراف کرچکی ہے کہ یہ سروس قواعد استحصالی اور امتیازی تھے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ جب بھی بھرتی قوانین بنائے جائیں یا مستقبل میں نئے سرے سے مرتب کئے جائیںتو اُس وقت تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ قوانین نوجوانوں کے مستقبل سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم کسی بھی قیمت پر اپنی نوجوان نسل کو مایوسی اور استحصال کی دلدل میں دھکیلنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔عجلت میں اور دماغ کے مناسب اطلاق کے بغیرلئے گئے فیصلے بعض اوقات تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی مشقوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ پالیسی اور فیصلہ سازی کے عمل سے وابستہ ارباب بست و کشاد سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں تاکہ دوسروں کو ان کے فیصلوں کی وجہ سے نقصان نہ اٹھانا پڑے۔اور اگر اس قسم کے امتیازی فیصلے کئے بھی جائیں تو ہمیشہ اصلاحی اقدامات کرنے کی گنجائش رہتی ہے جیسا کہ موجودہ حکومت نے ان قوانین کو ختم کر کے کیا۔وقت کا تقاضا ہے کہ چونکہ جموںوکشمیر یوٹی بن چکا ہے تو یہاں روایتی اور مروجہ سروس قوانین پر نظر ثانی کی جائے اور جدید دور کے تقاضوں اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرتی قوانین نئے سرے سے مرتب کئے جائیں تاکہ یہاں کا سرکاری ملازم موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی ڈیوٹی کرسکے اور اُنہی تقاضوںکے مطابق اُسے اجرت بھی ملے۔چونکہ مرکزی سرکار کے ملازمین کو پہلے ہی بے پناہ مراعات حاصل ہیں تو پہلی فرصت میں جموں وکشمیر کے سروس قوانین کو مرکز کے ہم پلہ بنا یا جائے تاکہ ہمارے ملازمین تنخواہوں اور دیگر مراعات کے معاملے میں مرکزی ملازمین سے پیچھے نہ رہیں اور اس کے بعد جوابدہی کا ایک ایسا نظام قائم کیاجائے کہ ملازمین کو معیاد سروس کی بناء پر نہیں بلکہ کارکردگی کی بناء پر ترقی سے نوازا جائے ۔اس کے نتیجہ میں سرکاری سیکٹر میںایک صحت مند مقابلہ آرائی کا ماحول پید اہوسکتا ہے جس سے کام کاج تو بہتر ہوگا ہی ،ساتھ میں عوام کا فائدہ ہوگا کیونکہ بالآخر یہ نظام پبلک ڈیلیوری سسٹم کی بہتری پر ہی منتج ہوگا۔