’’اماں نامہ‘‘ _۔ نشاط کی نشاط انگیزی ایک نظر

ایس معشوق احمد

کہا جاتا ہے کہ اچھی کتاب بہترین تفریح کا ذریعہ ہے۔چند روز قبل ایسی ہی کتاب میرے زیر مطالعہ رہی جو واقعی تفریح کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ کتاب کا عنوان بھی منفرد ہے اور عنوان دیکھ کر اس کو پڑھنے کے لیے تجسس کا گھوڑا اتنا تیز بھاگنا شروع کرتا ہے کہ نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ کتاب کا نام ’’اماں نامہ‘‘ ہے۔اماں نامہ نشاط یاسمین خان کے اکیس مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ بات ’’ اماں نامہ ‘‘سے شروع ہوکر ’’ ابا نامہ ‘‘ پر اختتام ہوئی ہے۔یہ مجموعہ 2017 ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کو رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے چھاپا ہے۔کتاب کا انتساب مصنفہ نے اپنے میاں صاحب عبدالسعید خان کے نام کیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ الفاظ حسن اور اثر رکھتے ہیں۔ ایک ادیب جب انہیں صحیح ڈھنگ سے اپنے مضامین میں استعمال کرتا ہے تو ان کا حسن مزید نکھر کرآتا ہے۔اس بات کی تصدیق نشاط یاسمین خان کے مضامین سے ہوتی ہے جن میں اثر انگیزی کے ساتھ ساتھ رشتوں کو موضوع بنا کر مزاح پیدا کرنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے۔اماں نامہ ہو یا ابا نامہ ، سوکن ہو یا گھر داماد ،داماد بھرتی کرنے کا طریقہ ہو یا ساس ان مضامین میں رشتے کرانے ، عورتوں کی نفسیات کہ اگر انہیں کہا جائے کہ گڑیا تمہاری سوکن ہے تو وہ اس سے بھی جلنا شروع کردیں ، ساس ماں نہیں بن سکتی کی دلچسپ تفصیل ، لڑکیوں کے رشتے کرانے کی چہل پہل اور اماں اور ابا کی محبت کو سیدھے سادے اور پر اثر اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ان مضامین سے چند مثالیں دیکھیں :
’’ہمارے اکثر گھرانوں میں یہی دستور رائج ہے کہ ہم خود بخود بچوں کو تقسیم کرلیتے ہیں ۔بیٹا اماں کا لاڈلا ،بیٹی ابا کی چہیتی ،جس بچے کو اماں نے نظر انداز کردیا وہ بچہ ابا کی آنکھ کا تارا بن گیا۔جس بچے پر ابا نے قہر و غضب کی نظر ڈالی، اس پر ماں سو جان سے فدا ہوگئیں۔جس بچے کی شرارتوں سے شیطان اور محلے والے دونوں پناہ مانگتے رہتے ہیں ،اماں اور ابا دونوں اس پر سو جان سے واری جاتے ہیں۔اس طرح کی تقسیم سے بچے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔اماں کے گروپ میں شامل ہونے والا بچہ پیٹ کی طرف سے اور ابا کے گروپ میں شامل ہونے والا بچہ جیب کی طرف سے خود کفیل رہتا ہے۔‘‘(اماں نامہ _ صفحہ 15)
’’اماں جس طرح جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اور ایک ڈربے میں دو مرغے ،اسی طرح ایک گھر میں دو گھر داماد نہیں رہ سکتے۔اس طرح ایک طرف تو اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے گی اور دوسری طرف آپ محلاتی سازشوں کا شکار اور ہم بھی تو اقوام عالم میں سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں۔‘‘(گھر داماد ۔صفحہ 22)
’’بقول ہماری اماں کہ ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی ۔یہ بات وہ اپنی بیٹیوں کی رخصتی کے وقت اچھی طرح سمجھا دیتی تھیں۔یہ اور بات کہ بیٹی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کیونکہ یہ وقت اماں کے فرمودات سمجھنے کا نہیں ہوتا ہے۔یہاں تو صرف یہ فکر لگ رہی ہوتی ہے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں۔میک اپ ،جیولری اور جوڑا کتنا خوبصورت ہے۔‘‘(ساس ۔ صٖفحہ 52)ایک مزاح نگار لفظوں سے ایسا گلدان سجاتا ہے جس میں درد وکرب اور غم والم کے کانٹے نہیں ہوتے بلکہ خوشی ، مسرت ،مسکراہٹ اور قہقہوں کے پھول ہوتے ہیں جس سے انسانی ذہن کو سکون ملتا ہے اور انسان جب مزاحیہ جملوں کو پڑھتا ہے تو اسے خوشگوار لطافت کا احساس ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں ہر فرد پریشانی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ ایسے میں مزاحیہ مضامین کو پڑھ کر زندگی کی تلخی اور کڑواہٹ کو کسی حد تک دور کیا جاسکتا ہے اور کھکھلاہٹ کے زیور کو پیشانی پر سجایا جا سکتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جس شخص نے ہنسنا سیکھ لیا، اس نے جینا سیکھ لیا۔نشاط یاسمین خان کے مضامین پڑھ کر قاری مسکراتا ہے ،ان کے جملے پڑھ کر خوش ہوتا ہے ،ان کے انداز بیان سے متاثر ہوتا ہے،زبان و بیان میں کہاوتوں، ضرب المثال اور محاورات کا برجستہ استعمال دیکھ کر داد دیتا ہے۔ان خوبیوں کی طرف اکرم کنجاہی نے بھی اشارہ کیا ہے۔لکھتے ہیں کہ ’’ نشاط یاسمین خان نے اپنی وہ وقیع تحریریں اردو ادب کو دی ہیں ،جن میں زبان و بیان کی چاشنی بھی موجود ہے اور ہر پیراگراف میں مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔جملوں کی بنت ، کہاوتوں کا چناؤ ، ضرب المثال کی پیش کش اور برجستہ محاورات کا استعمال ان کی تحریر کی اصافی خوبیاں ہیں جن سے اردو ادب مالا مال ہوگا۔‘‘
اختصار ، انداز بیان سادہ مگر پر اثر ، محاورات اور ضرب المثال کا برمحل استعمال اور بے تکلفانہ فضا پیدا کرنے کی صلاحیت نے نشاط یاسمین خان کے مضامین کو بااثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ مضامین پڑھ کر بوریت کا احساس نہیں جاگتا اور نہ ذہن اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ان مضامین میں قصہ گو کی حیثیت سے مصنفہ ہماری سامنے آتی ہے ۔جہاں وہ موضوع کو برتنے میں کامیاب نظر آتی ہیں وہیں مرقع نگاری اور منظر کشی میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ان کا مشاہدہ اتنا عمیق ہے کہ وہ روز مرہ کے واقعات اور گھریلو معاملات کے مضحک پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں کامیاب نظر آتی ہیں۔ان مضامین کو پڑھ کر قاری قہقہ نہیں لگاتا بلکہ زیرلب مسکراتا ہے۔یہاں ہنسی کا مینہ نہیں برستا بلکہ ہلکے مزاح کی پھوار ہے۔مختصر کہہ سکتے ہیں کہ ’اماں نامہ‘ روزنامہ ہے ان واقعات کا جو مصنفہ کے سامنے رونما ہورہے ہیں ، ان تجربات کا جو زمانے نے اسے عطا کئے ہیں ، ان مناظر کا جو اس کی آنکھوں نے دیکھے ہیں ، ان خیالات کا جو اس کے ذہن پر دستک دے رہے ہیں ، ان جذبات و احساسات کا جن کو وہ لفظوں کا پیراہن عطا کررہی ہیں۔اس کتاب میں نشاط یاسمین خان نے قاری کے لیے نشاط انگیزی کا پورا سامان میسر رکھا ہے۔غریب کی جیب میں پیسے اور اردو ادب میں خواتین مزاح نگار عنقا ہے۔ایسے میں نشاط یاسمین خان کے یہ مضامین مزاحیہ ادب کے شیدائیوں کے لیے صحرا میں پانی کی مانند ہیں۔
(رابطہ۔ 8493981240)
[email protected]