اللہ تعالیٰ پردہ پوشی کرنے والاہے میری بات

شگفتہ حسن

مغرب کی نماز پڑھ کر میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھی ہوں۔ خاموشی کا عالم اور پرسکون فضا کا ماحول ہے۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگا ہے۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں اور ایک حصے پر بادل نظر نہیں آ رہے۔میں اس حصہ کو بہت غور سے دیکھنے لگی اور مجھے وہاں پر الحلیم، الغفور اور العفو کے الفاظ لکھے ہوئے نظر آئے اور یہ الفاظ اتنے بڑے بڑے لکھے ہوئے ہیں یوں لگ رہا ہے گویا چاند کو کاٹ کر لکھے گئے ہیں اور بالکل چاند کی طرح روشن ہیں۔ یہ دیکھ کر میں بہت حیران رہ گئی۔ میں جلدی سے اٹھ کر کھڑی ہوئی اور ’’سبحان اللہ‘‘ پڑھنے لگی۔
اتنے میں میرے بابا تشریف لائے اور میرے سامنے کھڑے ہوگئے۔ بابا کو دیکھ کر میں نے بہت خوشی محسوس کی اور میں نے اسے آسمان کا وہ حصہ دکھایا، جہاں پر مجھے الحلیم، الغفور اور العفو کے الفاظ لکھے ہوئے نظر آئے۔ یہ دیکھتے ہی میرے بابا رونے لگے اور روتے ہوئے یہ جملہ بولنے لگے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا ہے اور اپنے بندوں سے انتہائی محبت کرنے والا ہے۔ بابا میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے حیا بیٹی صبح و شام کثرت سے اپنے رب سے اپنے گناہوں پر توبہ واستغفار کیا کریں۔
یہ جملہ سن کر میرے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگا۔ کیا رب اپنے بندوں کے گناہوں اور خطاؤں کو مکمل طور پر معاف کر دیتا ہے؟
میں نے اپنے بابا سے اس سوال کے جواب کی تلقین کی اور ساتھ ہی یہ بھی پوچھا کہ الحلیم، الغفور اور العفو کی اصل تعریف کیا ہے؟ بابا ایک بار پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے دیکھو حیا بیٹی! اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے تین نام الحلیم، الغفور اور العفو ہیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت، شفقت اور رحمت پر زور دیتے ہیں۔ یعنی الحلیم، الغفور اور العفو اس کی محبت کی صفت ہے۔
الحلیم:عذاب دینے میں جلدی نہ کرنے والا، بندوں کو سنبھلنے کا موقع دینے والا۔ نرم مزاج۔
الغفور: بخشنے والا، بہت زیادہ درگزر کرنے والا، پردہ پوشی کرنے والا، اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرنے والا۔
العفو: بڑا بخشنے والا، نرم خو، بہت زیادہ معاف کرنے والا۔ گناہوں کو مکمل طور پر مٹانے والا۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنا پسند کرتا ہے، اور اس کے معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جرم کے ارتکاب کا کوئی سراغ يا ریکارڈ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ایسے معاف کر دیتا ہے، جیسے اس سے کبھی کوئی گناہ ہوا ہی نہیں تھا۔ وہ، وہ ہے جو گناہ کے تمام نشانات مٹا دیتا ہے۔ وہ معافی کے علاوہ گناہ کے تمام نشانات کو مکمل طور پر ختم کرتا ہے۔ اس کی بخشش لامحدود ہے۔ اس کی بخشش ان تمام لوگوں تک پہنچتی ہے جو عاجزی کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
جب بھی کوئی انسان گناہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کے لیے جلدی نہیں کرتا۔ اگرچہ وہ قادر ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے فیصلوں پر صبر کرتا ہے اور ہمیں سدھرنے کے لئے دوسرا موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ اس طرح صبر کرتا ہے ،جس طرح ایک ماں اپنے بچوں کے لیے محبت اور صبر کا مظاہرہ کرتی ہے یا ایک اچھے دوست کی طرح جو آپ کی خامیوں اور کمزوریوں کو جانتا ہوتا ہے لیکن تب بھی آپ کی مدد کرنے پر خوش ہوتا ہے۔
حیا بیٹی ہمیں بغیر گناہ کے بھی استغفار کرنا چاہیے؟
’’بابا بغیر گناہ کے کیوں؟‘‘
بابا میرا سوال سن کر مسکرائے اور بولے حیا بیٹی! اگر آپ کسی وقت میرے پاس آ کر یہ کہو گی ،بابا اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو مجھے معاف کر دیں ۔حالانکہ آپ نے کوئی بھی غلطی نہ کی ہو۔ میں یہی سوچو گا کہ میری حیا بیٹی کتنی پیاری ہے ،بغیر غلطی کے بھی مجھ سے معافی مانگ رہی ہے! تو کیا ایسی صورت میں مجھے اپنی بیٹی پر پیار نہیں آتا؟ بغیر گناہ کے استغفار کرنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ جب بندہ بغیر گناہ کے استغفار کرتا ہے تو اللہ کو بھی اپنے اس بندے پر پیار آتا ہے اور بغیر گناہ کے استغفار کرنا رحمت الہٰی کو کھینچنے کا سبب بنتا ہے۔
بابا یہ جان کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ الغفور ہے، کیونکہ وہ ہمیں ماضی کے گناہوں سے برباد نہیں ہونے دیتا۔ ہاں حیا بیٹی ،ایک مومن کو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ الغفور ہے۔ وہ سب سے اعلیٰ ہے۔ ایک مومن کو اس کی رحمت سے ہمیشہ پُر امید رہنا چاہیے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ میرے گناہوں کا بوجھ خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ،اللہ کی رحمت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ سمندر کی جھاگ سے زیادہ گناہ کرنے والا بھی جب اپنے گناہوں پر شرمسار ہو کر اللہ کے حضور گڑ گڑاتا ہے تو اللہ اس کی سنتا ہے اور اس کو اپنے دامن رحمت میں پناہ دیتا ہے۔ جیسے کہ سورہ الزمر کی آیت نمبر ۵۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے وہ بندو! جو اپنی جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو۔ اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہونا یقیناً اللہ تمہارے سارے کے سارے گناہ بخش دے گا۔ وہ بہت ہی معاف فرمانے والا اور بڑا ہی مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کا حکم مانو اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ پڑے اور پھر تم کہیں سے مدد نہ پا سکو۔‘‘
اتنے میں ہی ’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ سے اذان کی آواز سنائی دی اور ہر طرف ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگی۔
عشاء کا وقت کب نزدیک آیا پتہ ہی نہیں چلا۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ بادل اب چھٹ گئے تھے اور ادھر ادھر کچھ تارے وہاں جھل مل جھل مل چمک رہے تھے۔
آج میں بہت خوش ہوں۔ ’’کیوں حیا بیٹی؟‘‘ کیونکہ آج میرے پیارے بابا نے اپنے لخت جگر اور اپنی جان سے پیاری بیٹی کو توبہ و استغفار اور رب کی رحمت سے آگاہ کیا۔
جزاک اللہ خیراً بابا! آمین۔
ہاں حیا بیٹی! آپ توبہ و استغفار برابر کرتے رہیے۔ صبح سے شام تک انسان سے نہ معلوم کتنی خطائیں ہوتی رہتی ہیں اور بعض اوقات خود انسان کو ان کا شعور نہیں ہوتا۔ انسان کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی بڑا گناہ ہوجانے پر ہی توبہ کی ضرورت ہے، انسان ہر وقت توبہ و استغفار کا محتاج ہے اور قدم قدم پر اس سے کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں۔ خود نبی کریمؐ دن میں ستر ستر بار اور سو سو بار توبہ و استغفار فرماتے تھے۔ ( بخاری، مسلم)
اٹھو حیا بیٹی! اب رات نے اپنی تاریکی چاروں طرف پھیلا دی ہے، آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ مجھے مسجد بھی جانا ہے اور نیچے آپ کی ’’امی‘‘ بھی ہمارا انتظار کر رہی ہوگی! جی بابا۔۔۔۔۔۔!
ہم نیچے آئے بابا مسجد چلے گئے اور میں سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے مصلی بچھایا اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی اپنے تمام گناہوں کا اقرار کیا اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگی۔ اب میں نے اپنی زندگی کا ایک معمول بنایا ہے میں دن میں چالیس پچاس بار کثرت سے استغفار کرتی ہوں۔
ig/Shagufta_hassan1236