الزام کس کو دیں، قصور کس کا ہے ! ’مسلم‘ یا ’مسلمان‘ لفظ کی بے حرمتی کا ذمہ دار کون؟

عبدالعزیز

گزشتہ روز ایک نوجوان صحافی کا میرے پاس فون آیا کہ کلکتہ سے شائع ہونے والا ایک ہندی روزنامہ نے صفحہ اوّل پر ایک خبر شائع کی ہے جس کی سرخی ہے ’’مسلم پریمی نے پریمیکا کی ہتیا کرکے شَو کے 35 ٹکڑے کئے‘‘۔ اس سرخی پر انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہاکہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے اس طرح کی سرخی یا خبر اخبارات یا سوشل میڈیا میں پیش کی جاتی ہے۔ آج میں نے ’فیس بک‘ میں دیکھا کہ ایک قلم کار اور صحافی نے مذکورہ سرخی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سیکولر ٹی ایم سی کے ایک سیکولر ایم ایل اے کے 15.11.22 کے اخبار کے صفحہ اول پر چھپی ایک بڑی خبر کی سرخی ‘‘۔پھر انھوں نے سوال کیا ہے کہ ’’کیا ہماری ریاست کے سیکولر چیف منسٹر کوئی کارروائی کریں گی؟‘‘
سوال یہ ہے کہ لفظ مسلم یا مسلمان کی بے حرمتی اور بے عزتی کرنے والا کون ہے؟ ظالم، قاتل، چور، ڈکیت ، دھوکہ باز، خائن سب کچھ ہوسکتا ہے مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو دانستہ طور پر کسی ظالم کی حمایت کرتا ہے وہ اپنے آپ کو خارج از اسلام کرلیتا ہے۔ اگر کوئی مولوی، مولانا یا عالم دین کسی فاحشہ کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے نظر آجائے تو لوگ اس کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہنے لگیں گے۔ لیکن اگر مذکورہ لوگ ظالم کے ساتھ گھل مل کر بات کریں، اس کے ساتھ مل جل کر ہنسی مذاق کریں تو لوگوں کو ذرا بھی حیرانی نہیں ہوتی اور بُرا بھی نہیں معلوم ہوتا، آخر کیوں؟ اس لئے نہیں معلوم ہوتا کہ مسلمان ظلم و فساد کے خلاف اب لڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ اب وہ خود اجتماعی فساد کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ اب یہ بھول گیا ہے کہ انسان کی یہ اسپرٹ کہ وہ بدی کو کسی حال میں برداشت نہ کرے اور اسے دفع کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوجائے، انسانی شرافت کی سب سے اعلیٰ اسپرٹ ہے اور عملی زندگی میں کامیابی کا راز بھی اسی اسپرٹ میں مضمر ہے۔ جو شخص دوسروں کے لئے بدی کو برداشت کرتا ہے اس کی اخلاقی کمزوری اسے بالآخر اس پر بھی آمادہ کردیتی ہے کہ وہ خود اپنے لئے بدی کو برداشت کرنے لگے اور جب اس میں برداشت کا یہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر اس پر ذلت کا وہ درجہ آجاتا ہے جسے خدا نے اپنے غضب سے تعبیر کیا ہے۔ ’’ضربت علیہم الذّلۃ والمسکنۃ و بآؤ بغضبٍ من اللہ‘‘۔اس درجہ میں پہنچ کر آدمی کے اندر شرافت وانسانیت کاکوئی احساس باقی نہیں رہتا۔ وہ جسمانی و مادی غلامی ہی نہیں بلکہ ذہنی و روحانی غلامی میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے اور کمینگی کے ایسے گڑھے میں گرتا ہے جہاں سے اس کا نکلنا محال ہوجاتا ہے۔
لفظ مسلم یا مسلمان جس کے معنی سچا ، ایماندار ،کسی کو دکھ نہ پہنچانے والا، امن و سلامتی، حق وانصاف کا علمبردار کس قدر ذلیل کردیا گیا ہے اور کن کن صفات کے ساتھ جمع کیا جارہا ہے؟ مسلمان اور زانی، مسلمان اور شرابی ، مسلمان اور قمار باز،مسلمان اور رشوت خور—۔اگر وہ سب کچھ جو غیر مسلمان یا کافر کر سکتا ہے وہی ایک مسلمان کرنے لگے تو مسلمان کے وجود کی دنیا میں حاجت ہی کیا ہے؟ مسلمان تو نام ہی اس تحریک کا تھا جو دنیا سے ساری بد اخلاقیوں کو مٹا نے کے لئے اٹھی تھی، ا س نے تو مسلمان کے نام سے ان چیدہ آدمیوں کی جماعت بنائی تھی جو خود بلند ترین اخلاق کے حامل ہوں اور اصلاح حال کے علمبردار بنیں۔ اس نے اپنی جماعت میں ہاتھ کاٹنے کی ، پتھر مار مار کر ہلاک کر دینے کی، کوڑے برسا کر کھال اڑا دینے کی، حتیٰ کہ سولی پر چڑھا دینے کی ہولناک سزا ئیں اسی لیے مقرر کی تھیں کہ جو جماعت دنیا سے زنا کو مٹا نے اٹھی ہے ،خود اس میں کوئی زانی نہ پایا جائے، جس کا کام شراب کا استیصال ہے،وہ خود شراب خوروں کے وجود سے خالی ہو ، جسے چوری اور ڈاکے کا خاتمہ کرنا ہے خود اس میں کوئی چور اور ڈاکو نہ ہو‘‘۔
بدی اور ظلم کیسے پھیلتا ہے؟
بنی اسرائیل کو ذلت اور مسکنت اور غضب و لعنت الٰہی میں مبتلا کرے کا فیصلہ اس وقت صادر ہوا جب انہوں نے بدی اور ظلم اور حرام خوری کی طرف لپکنا شروع کیا۔ ان کی قوم کے پیشوا مصلحت پرستی کے مرض میں مبتلا ہو گئے، ان میں گناہوں کے ساتھ رواداری پیدا ہو گئی اور ان میں کوئی گروہ ایسا نہ رہا جو عیب کو عیب کہنے والا اور اس سے روکنے والا ہوتا:’’ تو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدود الٰہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں، یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے، کیوں نہ ان کے مشائخ اور علماء نے ان کوبُری باتیں اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا؟ یہ بہت بُرا تھا جو وہ کرتے تھے۔‘‘ (المائدہ :9)’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کرائی گئی، اس لئے کہ انہوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو برے افعال سے نہ روکتے تھے۔‘‘(المائدہ:11)
اس آخری آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث منقول ہیں ،وہ قرآن کریم کے مقصد کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا:’’بنی اسرائیل میں جب بد کاری پھیلنی شروع ہوئی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی یا دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا اور کہتا کہ اے شخص خدا کا خوف کر،مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور یہ بد کاری کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا، جب ان کا یہ حال ہو گیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑ گیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی داؤد ؑ اور عیسیٰ بن مریمؑ کی زبان سے ان پر لعنت کی۔‘‘
راوی کہتا ہے کہ جب حضورؐ سلسلہ تقریر میں اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو اور جس کو برا فعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملہ میں ہرگز رواداری نہ برتو، ورنہ اللہ تمہارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی‘‘۔
اعتقاد اور عمل کے فساد کا حال وبائی امراض کا سا ہے۔ ایک وبائی مرض ابتدا میں چند کمزور افراد پر حملہ کرتا ہے۔ اگر آب و ہوا اچھی ہو، حفظان صحت کی تدابیر درست ہوں، نجاستوں اور کثافتوں کو دور کرنے کا کافی انتظام ہو اور مرض سے متاثر ہونے والے مریضوں کا بر وقت علاج کر دیا جائے تو مرض وبائے عام کی صورت اختیار کرنے نہیں پاتا اور عام لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن اگر طبیب غافل ہوں، حفظان صحت کا محکمہ بے پرواہ ہو، صفائی کے منتظم نجاستوں اور کثافتوں کے روادار ہوجائیں تو رفتہ رفتہ مرض کے جراثیم فضا میں پھیلنے لگتے ہیں اور آب وہوا میں سرایت کر کے اس کو اتنا خراب کر دیتے ہیں کہ وہ صحت کے بجائے مرض کے لئے ساز گار ہوجاتی ہے۔ آخر کار جب بستی کے عام افراد کو ہوا، پانی، غذا لباس،مکان غرض کوئی چیز بھی گندگی اور سمّیت سے پاک نہیں ملتی تو ان کی قوتِ حیات جواب دینے لگتی ہے اور ساری کی ساری آبادی وبائے عام میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ پھر قوی سے قوی افراد کے لئے بھی اپنے آپ کو مرض سے بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ خود طبیب اور صفائی کے منتظم اور صحتِ عامہ کے محافظ تک بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہلاکت سے محفوظ نہیں رہتے جو اپنی حد تک حفظانِ صحت کی جملہ تدبیریں اختیار کرتے ہیں اور دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں، کیوں کہ ہوا کی سمیت، پانی کی گندگی، وسائلِ غذا کی خرابی اور زمین کی کثافت کا ان کے پاس کیا علاج ہو سکتا ہے۔
اسی پر اخلاق و اعمال کے فساد اور اعتقاد کی گمراہیوں کو بھی قیاس کرلیجئے۔ علماء قوم کے طبیب ہیں۔ حکام اور اہل دولت صفائی اور حفظانِ صحت کے ذمہ دار ہیں۔ قوم کی غیرتِ ایمانی اور جماعت کا حاسۂ اخلاق بہ منزل قوتِ حیات(Vitality) ہے۔ اجتماعی ماحول کی حیثیت وہی ہے جو ہوا، پانی، غذ اورلباس و مکان کی ہے اور حیاتِ قومی میں دین و اخلاق کے اعتبار سے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا وہی مقام ہے جو صحتِ جسمانی کے اعتبار سے صفائی و حفظان صحت کی تدابیر کا ہے۔ جب علماء اور اولی الامر اپنے اصل فرض یعنی امر بالعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیتے ہیں اور شروفساد کے ساتھ رواداری برتنے لگتے ہیں تو گمراہی اور بد اخلاقی قوم کے افراد میں پھیلنی شروع ہوجاتی ہے اور قوم کی غیرت ایمانی ضعیف ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ سارا اجتماعی ماحول فاسد ہوجاتا ہے۔ قومی زندگی کی فضا خیر و صلاح کے لئے نا مساعد اور شر و فساد کے لئے ساز گار ہوجاتی ہے، لوگ نیکی سے بھاگتے ہیں اور بدی سے نفرت کرنے کے بجائے اس کی طرف کھینچنے لگتے ہیں، اخلاقی قدریں الٹ جاتی ہیں، عیب ہنربن جاتے ہیںاور ہنر عیب، اس وقت گمراہیاں اور بد اخلاقیاں خوب پھلتی پھولتی ہیں اور بھلائی کا کوئی بیج برگ و بار لانے کے قابل نہیں رہتا۔ زمین ، ہوا، پانی سب اس کی پرورش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی ساری قوتیں اشجارِ خبیثہ کو نشو و نما دینے کی طرف مائل ہوجاتی ہیں۔ جب کسی قوم کا یہ حال ہوجاتا ہے تو پھر وہ عذاب الٰہی کی مستحق ہوجاتی ہے اور اس پر ایسی عام تباہی نازل ہوتی ہے جس سے کوئی نہیں بچتا خواہ وہ خانقاہوں میں بیٹھا ہوا رات دن عبادت کر رہا ہو‘‘ ۔ (جاری)
[email protected]
Mob:9831439068 / 9874445664