افغانستان کی ابتر اور پیچیدہ ہوتی صورت ِ حال ندائے حق

اسدمرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’افغانستان سے متعلق ماسکو کانفرنس میں جہاں مختلف علاقائی ممالک نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غوروخوض کیا، وہیں پاکستان کی جانب سے موجودہ افغان حکومت کی تنقید سے اس کی ناراضگی اور بے بسی کا اظہار ظاہر ہوتا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ فروری کے بعد سے جب روس ۔یوکرین جنگ شروع ہوئی تو افغانستان کا معاملہ عالمی منظر نامے پر بہت حد تک غائب ہوگیا تھا اور ایسا تاثر قائم ہورہا تھا کہ عالمی سطح پر صرف روس-یوکرین جنگ ہی سب سے بڑا عالمی مسئلہ رہ گیا ہے۔اس کے علاوہ کہیں سے بھی ایسا تاثر نہیں مل رہا تھا کہ کوئی بھی ملک افغانستان کی تعمیر نو کے لیے موجودہ افغان حکومت کے ساتھ سنجیدگی سے کام کرنا چاہتا ہے۔
تاہم افغانستان سے متعلق ہونے والی ماسکو کانفرنس میں 14 سے زائد ممالک کے نمائندوں اور حکام نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اجلاس کی میزبانی روس نے کی اور شرکاء نے افغانستان کی سیاسی، اقتصادی اور انسانی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی دنیا افغانی عوام کو بھولی نہیں ہے۔
10 ممالک، جن میں سے کوئی بھی افغانستان پر فوجی قبضے میں ملوث نہیں تھا، ماسکو میں ایک سال بعد ملاقات کر رہے ہیں۔ شرکاء میں بھارت، پاکستان، روس، چین، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے نمائندے شامل تھے۔کانفرنس میں قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور ترکی کے نمائندوں نے خصوصی مبصرین کے طور پر شرکت کی۔
کانفرنس کے آغاز میں روس کے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف نے کہا کہ ہمیں افغان اقتصادی مسئلے کا جامع حل فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی اصل ذمہ داری مجموعی طور پر امریکہ کی قیادت میں مغربی اور یوروپی بلاک پر عائد ہوتی ہے۔ جن لوگوں کی وجہ سے 20 سال تک ملک کو موجودہ بدحالی کی طرف دھکیلا گیا اور ساتھ ہی اپنے انخلاء کے بعد افغانستان کے قومی اثاثے منجمد کرکے بے شرمی سے ملک کا معاشی طور پر دم گھٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے بھی تیار نہیں تھے۔ ان کا واضح اشارہ امریکہ کی جانب تھا، جوکہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا۔
علاقائی پیش رفت :
کانفرنس میں ، MEA کے جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ، جنہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ کام کرنے پر زور دیا کہ افغانوں کی’’آواز‘‘ ضائع نہ ہو،نے ہندوستان کی نمائندگی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ افغانوں کی آواز اور امنگیں ضائع نہ ہوں اور انہیں یقین دلائیں کہ ہم اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چین کے خصوصی مندوب برائے افغان امور یو شیاؤونگ نے کہا کہ امریکہ نے بے شرمی کے ساتھ افغان مرکزی بینک کے 7 ارب ڈالر کے اثاثے ضبط کر لیے ہیں اور تمام ترقیاتی امداد یکطرفہ طور پر روک لگا دی ہے۔جس کا غیر مثبت اثر افغانستان کی معیشت پر رونما ہورہا ہے۔
افغانستان کے لیے ایران کے خصوصی ایلچی حسن کاظمی قمی نے کہا ہے کہ بہت جلد تہران میں علاقائی وزرائے خارجہ کا اجلاس ہو گا جس میں افغانستان کی اقتصادی پریشانیوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
دریں اثناء امارت اسلامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ ملاقاتیں اور اجلاس جن میں کابل کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہو، وہ زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوسکتیں۔ افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم اس بات پر زور دینا چاہتے ہیں کہ امارت اسلامیہ ایک آزاد حکومت کے طور پر ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اپنے عوام کی بہتری اور ملک کی تعمیر نو کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کررہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ کسی بھی تیسرے ملک کو افغانستان کے اندرونی حالات میں غیر مطلوبہ مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت ایک ’’جوابدہ حکومت‘‘ ہے اور اس نے ”مخالف گروہوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات” کیے ہیں۔
پاکستان کی تنقید :
ماسکو اجلاس میں جہاں دیگر ممالک افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلے میں کوئی بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے سنجیدگی سے غوروخوض کررہے تھے وہیں اس موقع پر ایک غیر معمولی اقدام میں، پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت کے 16 ماہ کے اقتدار کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کہ عبوری حکومت نے شمولیتی حکومت کی تشکیل، خواتین کے حقوق کے تحفظ اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے کوئی بھی کام نہیں کیا ہے، موجودہ افغان حکومت کی شدید نکتہ چینی کی۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی ایلچی صادق خان نے افغانوں کی حمایت پر زور دیا، تاہم انھوں نے کہا کہ پیشرفت کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کو انسانی اور اقتصادی بحرانوں اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے درکار اہم تعاون میں کمی آئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ گزشتہ 16 مہینوں میں امارتِ اسلامیہ کی مختلف پیشرفت کی ایک رپورٹ پاکستان نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ میں افغانستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال، مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلا اور عدم استحکام اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے علاوہ ، عبوری افغان حکومت کی نکتہ چینی کی فہرست پیش کی گئی ہے۔
پاکستانی ایلچی کے مطابق، عبوری افغان حکومت کی طرف سے یقین دہانیوں کے باوجود، خواتین اور لڑکیوں کے حقوق میں بھی پسپائی ہوئی، ترقی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے قدموں کے نشانات کا مکمل خاتمہ ہونا ابھی بھی باقی ہے۔
اگرچہ پاکستان کو افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ایک اہم اور مخلص کھلاڑی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا،لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا اور اس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ امارت اسلامیہ اور پاکستان حکومت اور آئی ایس آئی کے درمیان ناخوشگوار تعلقات، اس کی بنیادی وجہ رہے ہیں۔ گزشتہ 16 مہینوں کے دوران ان کی افواج نے سرحدی معاملے پر متعدد بار ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔ مزید برآں، بین الاقوامی برادری بھی پاکستان کو افغانستان میں کوئی بامعنی کردار سونپنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی، کیونکہ گزشتہ 40 سال میںپہلے سوویت یونین اور بعد میں امریکی مداخلت کے دوران اس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ سب پر واضح ہے۔ اور موجودہ حالات میں کوئی بھی عالمی طاقت یا ملک اسے وہی کردار دوبارہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے ،شروع سے ہی ہندوستان کا نظریہ طالبان حکومت کے ساتھ اشتراک و بات چیت کو فروغ دینے کا رہا ہے۔ اس سلسلے میں امارت اسلامیہ کے قیام سے قبل دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے بعد ہندوستان نے اس عمل میں کچھ تحمل سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے دیگر ملکوں نے افغانستان کی تعمیر نو کے پروگراموں کے سلسلے میں ہندوستانی اشتراک کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس کے باوجود ہندوستان اس بات پر قائم ہے کہ افغانستان کی ترقی اور تعمیر نو کا معاملہ اس کے علاقائی ہمسایوں کے ساتھ اشتراک میں ہونا چاہیے اور ان ممالک کو، جنہوں نے ماضی میں افغانستان کی سیاست میں دھڑے بندی کا کردار ادا کیا ہے، انھیں اس سے دور رکھنا چاہیے یعنی کہ پاکستان۔
موجودہ منظر نامے میں، ہندوستانی حکومت کو امارتِ اسلامیہ اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ اپنی سفارتی کوششیں اور آؤٹ ریچ سرگرمیاں تیز کرنی چاہئیں۔ افغان معاملات میں بھارت کے ماضی کے کردار کو آسانی سے مٹایا نہیں جا سکتا اور اب G20 کے سربراہ کے طور پر، بھارت یقینی طور پر افغانستان کے لیے ایک بامعنی اور نتیجہ خیز پروگرام شروع کرنے کے لیے پرعزم انداز میں آگے بڑھ سکتا ہے اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
مزید براں امارتِ اسلامیہ کو افغانستان پر آئندہ کسی بھی اجلاس کے مشاورتی عمل کا حصہ بنایا جانا چاہیے، کیونکہ ان کی موجودگی کے بغیر کسی بھی اجلاس کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی ان کوششوں کو مخلصانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے