افغانستان میں بھوک کا بحران، 10لاکھ بچے بُری طرح متأثر

 

کابل//افغانستان میں دس لاکھ سے زائد بچے غذا کی شدید قلت کا شکار ہیں اور نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ اس صورتحال کی جزوی ذمہ دار اس ملک پر لگنے والی پابندیاں بھی ہیں۔دس لاکھ سے زائد کم سن بچے ہندو کش کی ریاست افغانستان میں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس ملک کی نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ طالبان کے خلاف پابندیوں نے افغانستان کو ایک انسانی المیے سے دوچار کر دیا ہے۔ صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ گزشتہ برس کے ڈبلیو ایف پی ‘ورلڈ فوڈ پروگرام‘ کے سربراہ ڈیویڈ بیسلی نے افغانتستان کو ” دوزخ بروئے زمین‘‘ قرار دیا تھا۔یہ حقیقت اپنی جگہ کہ 2021 ء اگست میں کابل میں افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد شاید ہی کوئی بمباری، فائرنگ، یا لڑائی ہوئی ہو لیکن ملک کی معیشت کی کمر ٹوٹ چْکی ہے۔برسلز میں قائم ایک تھنک ٹینک’ انٹرنیشنل کرائسز گروپ‘ نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا،” گزشتہ دو دہائیوں میں بموں اور گولیوں سے جتنے افغان باشندے ہلاک ہوئے اْس سے کہیں زیادہ کے اب ملک میں پائی جانے والی بھوک اور بدحالی سے ہلاک ہو نے کا امکان پیدا ہو چْکا ہے۔‘‘گزشتہ موسم سرما کے بعد سے کچھ بھی بہتر نہیں ہوا ہے۔ امدادی تنظیم سیو دی چلڈرن کی افغانستان کے لیے ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹر نورا حسنین نے ڈی ڈبلیو کو اْن ”مایوس خاندانوں‘‘ کے بارے میں بتایا جنہیں تیزی سے”انتہائی اور نقصان دہ حکمت عملی‘‘ کا سہارا لینا پڑتا رہا ہے۔اس کا مطلب کیا ہوا؟ حسنین کہتی ہیں، ”اس میں اپنے بچوں کو بیچنے جیسا عمل بھی شامل ہے، اور دوسری چیزیں جو اس سے پہلے کبھی نہیں کرتے۔‘‘طالبان امن مذاکرات میں امریکیوں کے حقیقی شراکت دار تھے، جو بہت تیزی سے انخلاء سے متعلق مذاکرات کی شکل اختیار کر گئے لیکن انہوں نے جو حکومت بنائی وہ بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ تھی اور اْسے الگ تھلگ کر دیا گیا۔نتیجتا کابل کی طرف پیسے کے بہاؤ رْک گیا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ ‘مسلم دہشت گردوں‘ کے خلاف پابندی بھی لگا دی گئی۔

اب یہ پابندیاں طالبان کی قیادت والی حکومت اور پورے ملک پر اثر انداز ہو رہی ہے۔پابندیاں دو طرح کی ہیں۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے ایک تو انفرادی طور پر مختلف شخصیات پر پابندی عائد کی جس میں بقول جرمن وزارت خارجہ ‘ ڈی فیکٹو گورنمنٹ‘ یعنی حکومت کے اراکین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے یکطرفہ طور پر طالبان پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جنہیں واشنگٹن نے 1999ء سے ”خصوصی طور نامزد کردہ عالمی دہشت گرد تنظیم‘‘ (SDGT) کے طور پر درج کر رکھا ہے۔جرمن شہر بون کے انٹرنیشنل سینٹر فور کونفلکٹ اسٹیڈیز BICC سے منسلک ایک ماہر کونراڈ شیٹر کا طالبان پر مذکورہ پابندیوں کے بارے میں کہنا ہے، ” انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی امداد کے سوا تمام اقتصادی امکانات منقطع ہو گئے، ملک کے تمام تر ترقیاتی منصوبے معطل کر دیے گئے۔‘‘ شیٹر کا مزید کہنا تھا، ” افغانستان کو اقتصادی اور مالیاتی منڈیوں سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا ہے۔‘‘ تنازعات کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے شیٹر کہتے ہیں، ”افغان باشندوں کو دوبارہ اپنی بقا کے خطرے سے دوچار معاشی صورتحال کے دور میں دھکیل دیا گیا ہے۔‘‘امریکی انتظامیہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے تقریباً سات بلین یورو کے بیلنس کو منجمد کرنے اور گیارہ ستمبر 2001ء￿ کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے لیے ممکنہ معاوضے کے لیے اس کی نصف رقم مختص کرنے کے فیصلے نے اس میں اہم کردار ادا کیا۔اس بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ، ایلینا ڈوہان کہتی ہیں، ”بین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر سے، مرکزی بینک کی رقم کا تعلق حکومت سے نہیں، بلکہ ملک سے ہوتا ہے۔‘

‘پابندیوں اور زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے افغانستان میں رقوم کی منتقلی تقریباً ناممکن ہے اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی کے بغیر، مرکزی بینک صرف ایک محدود حد تک افغان معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ نظریاتی طور پر انسانی امداد کے لیے خصوصی اجازت نامے موجود ہیں مگر عملی طور پر ان کا حصول بہت مشکل ہے اور اس کا اطلاق افغانستان کے لیے جرمنی امداد پر بھی ہوتا ہے۔